روانگی کے ساتھ ہی ہمارے عظیم اور مقبول ترین وزیر اعظم عمران خان جو تبدیلی اور نیا پاکستان کا نعرہ بلند کر کے اقتدار کی کرسی پر آج تک تو براجمان ہیں (کل کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ اقتدار میں ہونگے کہ نہیں) فوری طور پر ایک بار پھر کنٹینر پر چڑھ گئے ہیں۔
وزیراعظم نے خود نوازشریف کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان سے یوٹرن لیکر پہلے ایک نہیں دو پاکستان کا طعنہ دیا اور عدالتوں پر امیروں کو کھلی چھوٹ دینے کا الزام دھر دیا۔
چیف جسٹس نے انہیں یاد دلایا کہ یہ چھوٹ عدالت نے نہیں بلکہ آپ جناب نے خود کابینہ کے ایک نکاتی ایجنڈے کے طویل اجلاس کے بعد عطا فرمائی۔ عدالت نے صرف طریقہ کار کو قانونی شکل دی کیوں کہ حکومت اس میں ناکام ہوگئی تھی۔ خان صاحب کا غصہ اس پر بھی ٹھنڈا نہ ہوا اور میانوالی شہر گئے جہاں انہیں انیس سو ستانوے کے انتخابات میں شکست کا نہ صرف سامنا کرنا پڑا تھا بلکہ انکی ضمانت بھی ضبط ہوگئی تھی، وہاں سے انہوں نے پھر کبھی الیکشن لڑنے کی جرات نہیں کی اور پہلا انتخاب میانوالی کی دوسری نشست جو (تحصیل عیسی خیل، کالا باغ کمر مشانی اور دوسرے پسماندہ علاقوں پر مبنی ہے) سے 2002 میں جیتا اور پھر بس اب تین بار وہیں سے الیکشن لڑا لیکن وہاں خان صاحب جانا بھی بھی پسند نہیں کرتے۔ گزشتہ اتوار کو میانوالی شہر میں ایک بار پھر وہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر ایک اپوزیشن رہنما کے طور پر نظر آئے اور اپنے ہی زیر نگرانی یا پھر اپنی ہی پارٹی کی پنجاب کی حکومت اور اسکی پوری مشینری پر سوالات کھڑے کر دئیے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جب نواز شریف لندن جا رہے تھے تو وہ بیمار نہیں لگ رہے تھے اور انہیں چلتا دیکھ کر میں کبھی انکو قطری جہاز پر چڑھتا دیکھوں، تو کبھی انکی میڈیکل رپورٹس کو۔ عمران خان نے کنٹینر پر کھڑا ہوکر خوب مزے مزے سے اور چسکوں کے ساتھ اپنی ہی نظام کو رگڑ ڈالا۔
اپنی ہی پارٹی کی یاسمین راشد جو خود ایک سپیشلسٹ ڈاکٹر ہیں, انکے بیانات کی نفی کر ڈالی کہ نواز شریف بہت بیمار ہیں، اسکے ساتھ آغا خان کے ڈاکٹر ہوں یا خود انکی والدہ کے نام پر شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹر یا پھر پنجاب حکومت کا پورا محکمہ صحت اسے تو فوری طور پر وزیر اعظم کی تقریر کے بعد گھر بھیج دینے کی ضرورت ہے اور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل انکی ڈگریاں فوری طور پر منسوخ کر دینی چاہیے۔
وزیر اعظم کی تقریر کے بعد سول ایوی ایشن پر بھی سوال اٹھ گیا ہے کہ جس جہاز پر نواز شریف لندن گئے وہ آیا ائیر ایمبولینس ہے یا پھر لگژری قطری طیارہ کیوں کہ جہاں میاں صاحب اور انکے خاندان کا انڈر ٹیکنگ دینے کا ساتھ ہمیشہ رہا، وہاں قطریوں اور سعودیوں کی نوازشات کا بھی ہمیشہ کا ساتھ رہا۔ وزیر اعظم عمران خان جب بھی کسی عوامی اجتماع میں تقریر کرنے کھڑے ہوتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اب وزیر اعظم کا حلف لے چکے ہیں، بلکہ انہیں حلف لیے ہوئے بھی اب سولہ ماہ کا طویل عرصہ بیت چکا اور حکومت کی کارکردگی پر اب نہ صرف سوالیہ نشان اٹھنا شروع ہوگئے ہیں بلکہ عمران خان جگہ کوئی اور گھوڑا کھڑا کرنے کی باتیں زور پکڑ گئی ہیں۔ اور انکی گزشتہ دو تقریروں میں غصے کی وجہ بھی یہی بتائی جاتی ہے۔
لگتا ہے کہ پانی اب سر سے گزر چکا اور جا کر کسی اور جگہ کھڑا ہوگیا ہے۔ اگر یہ سچ ثابت ہوا تو ان نادیدہ قوتوں کا سلیبرٹی پراجیکٹ بری طرح فیل ہو گیا ہےجو عمران خان کی شہرت اور معروف چہرے کو سامنے رکھ کر آقتدار اور نظام کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی تھیں۔ سوال یہ کہ آخر یہ رویہ اور نادیدہ قوتوں کا یہ کھیل کب تک چلتا رہے گا؟