جنرل مشرف کے خلاف فیصلہ رکوانے کی درخواست: یہ محبتیں بہت پرانی ہیں

05:46 PM, 25 Nov, 2019

علی وارثی
جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو اقتدار پر شب خون مار کر قبضہ کیا۔ مسلم لیگ ن کے رہنما سید ظفر علی شاہ نے اس غیر آئینی اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو جنرل مشرف نے اعلیٰ عدالتوں کے ججز کے لئے ذاتی وفاداری کا حلف نامہ، جسے عرفِ عام میں PCO بھی کہا جاتا ہے، جاری کر دیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی سمیت بہت سے ججوں نے یہ حلف اٹھانے سے انکار کر دیا۔ جنرل مشرف سے وفاداری کا حلف اٹھانے والے نئے ججوں کا ایک پینل بنایا گیا جس میں نئے چیف جسٹس ارشاد حسن خان بھی شامل تھے اور افتخار چودھری بھی شامل تھے۔

اس بنچ نے نہ صرف اس اقدام کو جائز قرار دے دیا بلکہ ایک فوجی آمر کو آئین میں تبدیلی کرنے کا اختیار بھی دے دیا اور تین سال تک بغیر الیکشن کروائے ملک کا مختارِ کل رہنے کا اختیار بھی دے ڈالا۔ ق لیگ، ملت پارٹی، پیپلز پارٹی پیٹریاٹ اور دیگر چھوٹی چھوٹی جماعتیں بنوائی گئیں اور 31 دسمبر 2004 کو وردی اتارنے کا جھوٹا وعدہ کر کے ایم ایم اے سے سترہویں آئینی ترمیم کے لئے ووٹ لے کر اس اقدام کی پارلیمانی توثیق حاصل کی۔

شاید انہوں نے یہی سوچا ہوگا کہ اگر ایک بار یہ کام کیا جا سکتا ہے تو دوبارہ بھی ممکن ہے۔ لہٰذا جب 2007 میں ان کے باوردی صدر کا انتخاب لڑنے کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا تو جنرل صاحب نے ایک بار پھر ملک میں ’ایمرجنسی پلس‘ لگا کر عدلیہ کو چلتا کیا اور ایک نیا پی سی او حلف جاری کر دیا۔ تنقید کے خوف سے میڈیا پر بھی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ ملک کے تقریباً تمام نجی چینل بند کر کے پی ٹی وی پر اپنے قریبی ساتھی ہمایوں گوہر اور ان جیسے دیگر ’صحافیوں‘ کو بٹھا کر اپنی تعریفیں کرواتے رہے۔



تاہم، 2008 کے الیکشن کے بعد یہ پابندیاں برقرار نہ رہ سکیں۔ سویلین حکومت نے مواخذے کی دھمکی دی تو ریٹائرڈ جنرل صاحب ’پاکستان کا خدا حافظ‘ کہہ کر گھر چلے گئے۔ پارلیمنٹ سے اس آئین سے سنگین غداری کی توثیق نہیں ہو سکی۔

2013 میں مسلم لیگ نواز کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ جنرل مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچائے گی۔ 31 مارچ 2014 کو جنرل مشرف کو عدالت نے چارج شیٹ کر کے ملزم قرار دے دیا۔

فوری طور پر ان کے پرانے دوست عمران خان جو 2002 میں ریفرنڈم کے دوران پرویز مشرف کے پولنگ ایجنٹ رہ چکے تھے، مگر اسی برس عام انتخابات میں بقول جنرل مشرف، ان کی جانب سے حمایت نہ کیے جانے پر ان سے ناراض ہوگئے تھے، ایک بار پھر اپنے دوست کی مدد کو آئے۔ جی ہاں۔ بہت سے مبصرین کا ماننا ہے کہ 2014 میں عمران خان کے دھرنے کے پیچھے بھی پرویز مشرف کا مقدمہ ہی تھا۔ اس بات کی دلیل یہ بھی ہے کہ پرویز مشرف کے ملزم قرار دیے جانے سے صرف چار دن پہلے ہی نواز شریف صاحب عمران خان کے گھر گئے تھے اور عمران خان نے طالبان سے مذاکرات کے فیصلے پر ان کی تعریف بھی کی تھی۔

لیکن حکومت کے جنرل مشرف کے خلاف مقدمے کی پیروی کرنے کا اعلان ہوتے ہی ان کو اپنے چار حلقے نہ کھلنے کا غم ایسا یاد آیا کہ اسلام آباد پر چڑھ ہی دوڑے۔ اور 126 روز تک دھرنا دینے کے بعد عدالتی کمیشن کی اسی شرط کو تسلیم کر کے واپس آ گئے جس کی پیشکش دھرنا شروع ہونے سے پانچ دن قبل ہی کر دی گئی تھی۔

2017 میں پرویز مشرف بیمار ہوئے تو ان کو بالکل اسی انداز میں باہر بھیج دیا گیا تھا جس طرح اب سے کچھ روز قبل نواز شریف کو بھیجا گیا۔ چودھری نثار عدالت پر اور عدالت چودھری صاحب پر الزامات لگاتے رہ گئے تھے۔

جنرل مشرف اور ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی تو بجا لیکن اس میں ان تمام لوگوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیے جنہوں نے جنرل مشرف کے اس فیصلے میں معاونت کی۔ کیونکہ آئین میں درج شدہ شق نمبر 6 میں معاونین اور مددگار لوگوں کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ جنرل مشرف نے یہ فیصلہ اکیلے تو نہیں کیا ہوگا۔ اور ستم ظریفی کی یہ بات ہے کہ مسلم لیگ نواز کے لیڈر زاہد حامد اس وقت مشرف کے وزیرِ قانون بھی تھے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے یہ تاریخ ساز قدم تو اٹھایا لیکن ان کی قانونی ٹیم معاونین والا معاملہ گول کر گئی۔



یہ بھی یاد رہے کہ نواز شریف کے بہت سے قریبی ساتھیوں نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ جنرل مشرف کے خلاف مقدمے کی پیروی سے گریز کریں۔ حتیٰ کہ انسانی حقوق کی مایہ ناز وکیل عاصمہ جہانگیر نے بھی آن ریکارڈ نواز شریف کو ایسا کرنے سے منع کیا تھا کیونکہ اس سے اسٹیبلشمنٹ کا رد عمل یقینی تھا۔ اور یہی ہوا۔ 2014 کے بعد نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات اتنے بگڑے کہ بالآخر 2017 میں ان کو عدالتی فیصلوں کی آڑ میں فارغ کر دیا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ڈولتی ہوئی حکومت اس طرح کا کوئی رسک نہیں لینا چاہیں گے۔

مزید یہ کہ جنرل مشرف کی کابینہ کے آدھے سے زیادہ ارکان عمران خان کی ٹیم کا حصہ ہیں اور شومئی قسمت کہ مشرف صاحب کے ذاتی وکیل اس وقت وزیرِ قانون کے عہدے پر براجمان ہیں۔ درحقیقت عمران خان حکومت جنرل مشرف کے دور کا ایک تسلسل ہے۔ اور اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ خود سویلین کابینہ کے اندر بھی وہ افراد شامل ہیں جو جنرل مشرف کے خلاف مقدمے کو منطقی انجام تک پہنچانے کے حق میں نہیں ہوں گے۔



شاید اسی وجہ سے حکومت میں آنے کے بعد تحریکِ انصاف نے جنرل مشرف مقدمے کی پیروی میں انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ مختلف مواقع پر وزرا یہ بھی کہتے دکھائی دیے کہ حکومت پرویز مشرف معاملے سے دور رہنا چاہتی ہے۔

گذشتہ ماہ جب مقدمہ اپنے حتمی مراحل میں تھا تو یکایک مشرف صاحب کے خلاف استغاثہ کی پوری ٹیم تبدیل کر دی گئی۔ اور اب جب کہ عدالت فیصلہ محفوظ کر چکی ہے اور 28 نومبر کو فیصلہ سنانے کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے تو اس سے صرف تین روز قبل اچانک حکومت کا عدالت سے درخواست کرنا کہ اس فیصلے کو نہ سنایا جائے، اس بات کا ثبوت ہے کہ کوئی ہے جو نہیں چاہتا کہ سنگین غداری کے مقدمے کا فیصلہ ہو۔

آج پاکستان کی عدلیہ اور سیاسی طبقہ تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ اور ان کے سامنے دو رستے موجود ہیں۔ ایک جو آئین اور قانون کی حکمرانی کی طرف جاتا ہے۔ اور دوسرا وہ جس پر یہ ریاست 72 سال سے چلتی آئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تاریخ خود کو دہرائے گی۔ یا ایک نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے۔
مزیدخبریں