ہائی کورٹ میں لاپتہ مدثر نارو کی بازیابی کے لیے دائر درخواست کی سماعت ہوئی۔ اہل خانہ کی جانب سے وکیل ایمان مزاری اور عثمان وڑائچ جبکہ وزارت دفاع کا نمائندہ بھی عدالت کے سامنے پیش ہوا۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ نے بتایا کہ 20 اگست 2018 کا واقعہ ہے، اس وقت وزیراعظم عمران خان ہی تھے اسی روز چارج لیا تھا۔
ہائی کورٹ نے وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کو متاثرہ فیملی کو سننے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اٹارنی بتائیں کب وزیراعظم اور وفاقی کابینہ متاثرہ فیملی کو سن کر مطمئن کریں گے، وہ لاپتہ ہونے والوں کی فیملی کو مطمئن کریں کہ ریاست اس میں شامل نہیں، اگر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے پیر تک تاریخ نا بتائی تو آئندہ سیکریٹری داخلہ پیش ہوں، ریاست اور وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کی حفاظت یقینی بنائے اور لاپتہ ہونے والے کی فیملی کو مطمئن کرے، ملک میں جبری گمشدگی کا رجحان موجود ہے ، مدثر کی ایک ماں ہے بیوی ہے اور ایک بچہ ہے ریاست ساتھ ہوتی تو در بدر نا پھر رہے ہوتے، لاپتہ شہری کی بازیابی یقینی بنانا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ہائی کورٹ نے کہا کہ یہاں کوئی رول آف لاء نہیں، یا تو یہاں جبری گمشدگی نا ہوتی ہو پھر بات کریں، ان کی فیملی مطمئن نہیں، ایسے میں وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کی ذمہ داری ہے کہ ان کو مطمئن کرے، کمیشن رپورٹ کے مطابق گمشدہ فیملی کا ماننا ہے کہ ریاست اور اس کی ایجنسیز اس واقعے میں ملوث ہیں۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی