نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قرض کی جو صورتحال ہے وہ بہت ہی تشویش ناک ہے۔ میں اس چیز کا سارا بوجھ تحریک انصاف کے دروازے پر نہیں رکھ سکتا کیونکہ اس میں ایک بڑی وجہ ایکسچینج ریٹ میں اتار چڑھائو بھی ہے جس میں لگ بھگ 70 فیصد کی کمی آ چکی ہے۔ پالیسی میکرز کو نئے عمرانی معاہدے کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہم اپنی ایکسپورٹس کو نہیں بڑھا پا رہے ہیں۔ یہ معاشی صورتحال ناصرف پی ٹی آئی بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کیلئے بھی سوالیہ نشان ہے کہ آنے والا وقت پاکستان کو کن چیلنجز اور مشکلات سے دوچار کرے گا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ ہم سارا بوجھ تحریک انصاف پر نہیں ڈال سکتے لیکن یہ وہ جماعت ہے جس نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نکالیں گے۔ وزیراعظم کہتے تھے کہ میں خودکشی کر لوں گا لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائوں گا۔ لیکن اقتدار میں آ کر انہوں نے بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا سب کے علم میں ہے۔
پروگرام میں شریک عامر وسیم نے ملک میں جاری پیٹرولیم بحران پر بات کی اور کہا کہ اس حکومت نے ہر چیز کو مس ہینڈل کیا، مسائل کو آخری حد تک پہنچا کر یہ یوٹرن لے لیتے ہیں۔ حکمران کسی بھی معاملے میں آخری حد تک جاتے ہیں اور بالاخر گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر ملک میں پیٹرول پمپس کی ہڑتال جاری رہی تو کچھ پتا نہیں کہ کیا حالات ہونگے۔ اگر انہوں نے ڈیلرز کی بات ماننی ہے تو بہتر ہے کہ ابھی ہی تسلیم کر لیا جائے تاکہ عوام کو مزید مشکلات سے بچایا جا سکے۔
عامر وسیم کا کہنا تھا کہ اگر پیٹرولیم بحران جاری رہا تو سیاسی طور پر بھی حکومت کو بہت بڑا نقصان ہوگا، اپوزیشن کو حکمرانوں کیخلاف احتجاج کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ پہیہ جام کی صورتحال تو پیدا ہونے جا رہی ہے۔
اس پر مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ حکومت نے اگر ڈیلرز سے مذاکرات کرنے ہی تھے تو ہڑتال سے پہلے کرتے۔ آج پورا دن ملک کی عوام کو شدید پریشانی کا سامنا رہا۔ ابھی تک اس بات کا کسی کو یقین نہیں ہے کہ یہ ہڑتال کب ختم ہوگی۔ اگر یہ ہڑتال صرف ایک دن اور برقرار رہی تو ملک میں ٹرانسپورٹ اور کھانے پینے کی اشیا کی ترسیل کے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔
پی ڈی ایم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عامر وسیم کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اتحاد ابھی تک حکومت کیخلاف کوئی فیصلہ ہی نہیں کر پا رہی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے باہر آنے کے بعد اس اتحاد کو ویسے ہی نقصان پہنچا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کوئی ہارڈ لائن لینا چاہتے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) ابھی تک اس پر رضامند نظر نہیں آ رہی۔ دھرنے کے معاملے پر اختلافات ہیں۔