فیکٹ فوکس کسی سیاست دان کے اثاثے ظاہر کرتا، تب بھی کیا اتنا ہی سناٹا طاری ہوتا؟

فیکٹ فوکس کسی سیاست دان کے اثاثے ظاہر کرتا، تب بھی کیا اتنا ہی سناٹا طاری ہوتا؟
تحقیقاتی صحافی احمد نورانی کی ویب سائٹ فیکٹ فوکس پر عزت مآب سمدھی جی کے خاندانی اثاثوں سے متعلق شائع ہونے والی رپورٹ اور اس رپورٹ کے بعد الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر عام حالات میں چھائے شتر بے مہاروں کی زبانیں گنگ ہونا؛ وجوہات کئی ہو سکتی ہیں پر یہاں عاصمہ جہانگیر ضرور یاد آتی ہیں جو کہا کرتی تھیں کہ کچھ داستانیں سامنے آئیں تو سیاست دان فرشتے لگنے لگیں گے۔

یہ بات بھی درست ہے کہ احمد نورانی کی پیش کردہ رپورٹ پر کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے سمدھی جی کو بھی صفائی کا موقع ملنا چاہئیے، خبر درست یا غلط بھی ہو سکتی ہے لیکن کیا ہمارے نابغہ روزگار صحافیوں کو اس رپورٹ کی بابت یہ ذمہ دارانہ سوالات نہیں اٹھانے چاہئیں کہ کم از کم سمدھی جی اپنی پوزیشن تو واضح کریں اور تو اور اگر سمدھی جی سمجھتے ہیں کہ رپورٹ میں شامل معلومات غلط ہیں تو کیا عوامی عہدے پر تعینات ہونے کی حیثیت سے انہیں یہ نہیں بتانا چاہئیے کہ حقائق غلط ہیں تو کس بنیاد پر غلط ہیں اور اگر اعداد و شمار وہی ہیں جو ٹیکس گوشواروں میں درج ہیں تو پھر یہ درست کیوں نہیں؟

تحقیقاتی رپورٹ پر سوال نہ اٹھنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ وجہ مقدس پیشے سے وابستہ لوگوں کی بے بسی، لاچاری، کمزوری یا مصروفیت بھی ہو سکتی ہیں۔ مصروفیت تو نظر بھی آتی ہے کہ بہت سے ابھی تک یہ کھنگالنے میں مصروف ہیں کہ سمدھی جی کی جگہ تعینات ہونے والے کا مزاج کیسا نکلتا ہے۔ حیرت انگیز طور سوشل میڈیا پر بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ بات بے بات یوٹیوب پر 'پھینکنے' والوں میں بہت سوں کے لب تا حال سلے ہوئے ہیں۔

حکومتی رویہ ملاحظہ کریں تو وزارت خزانہ کی مسند پر بیٹھے دوسرے سمدھی اس لئے اتاولے ہو رہے ہیں کہ عزت مآب سمدھی کے اہل خانہ کے ٹیکس ریکارڈ کیسے لیک ہوئے۔ لیکن یہاں پر اسحاق ڈار کو کوسنے کی بھی قطعاً ضرورت نہیں۔ یہی احمد نورانی تھے جو 2020 میں اپنی رپورٹ کے ذریعے جنرل عاصم سلیم باجوہ کے اہل خانہ کے بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات منظر عام پر لائے تھے، شور مچا تو جنرل عاصم باجوہ جو وزیراعظم کے معاون خصوصی کے طور پر کام کر رہے تھے، انہوں نے بخوشی اپنا استعفیٰ پیش کر دیا، لیکن اس وقت کی عمرانی حکومت نے بغیر کسی تحقیقات کے جنرل عاصم باجوہ کے اندر کی سچائی و ایمان داری کو پرکھتے ہوئے ان کا استعفیٰ منظور کرنے سے انکار کر دیا۔ اور تو اور چند دانشوروں نے اس سارے معاملے کو باجوہ صاحب کے خلاف نہ صرف سازش قرار دیا بلکہ اس سازش کے تانے بانے سی پیک سے جوڑ دیے۔ ایسے میں روئیں تو کس کے آگے روئیں؟

ہلکا سا جو شور اٹھا وہ اپوزیشن کے کچھ نمائندوں کا شور تھا۔ جنہوں نے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ ضرور کیا لیکن یہ مطالبہ اتنا کمزور تھا کہ مطالبہ کرنے والوں کی نیت میں کھوٹ دور سے ہی نظر آتا تھا۔ لیکن سمدھی جی کے معاملے میں تو نیت جانچنے کا موقع بھی نہیں ملا، کیونکہ تاریخ کے سب سے طاقتور اپوزیشن لیڈر اور قانون کی حکمرانی کے داعی عمران خان ابھی تک انگشت بدنداں نظرآتے ہیں۔
تصور کیجئے اگر سمدھی جی کی جگہ احمد نورانی کی تحقیقاتی رپورٹ کا مرکزی کردار کوئی سیاست دان ہوتا تو کیا ماحول پر ایسا ہی سناٹا طاری رہتا؟ کیا اس خبر کو بھی الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں جگہ نہ ملتی؟ کیا تب بھی سیاست دان یا سرکاری عہدیدار اس معاملہ پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے؟

اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ احتساب جمہوری عمل کا حصہ ہوتا ہے لیکن اس کا فائدہ تب ہی ہوتا ہے جب خاص وعام کی تمیز نہ کی جائے۔ مملکت خداداد میں اگر 'سمدھیوں' اور 'سیاست دانوں' کے لیے الگ الگ قانون ہوں گے تو جمہوریت کی جڑیں کیسے مضبوط ہوں گی؟ اور جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنی ہیں تو احتساب کے نام پر فقط سیاست دانوں کو بے لباس کرنے والوں کو یہ تسلیم کر لینا چاہئیے کہ اس دیس میں 'گندے' صرف سیاست دان ہی نہیں ہیں۔

لکھاری ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں۔