سابق سؤویت یونین کے خلاف جہاد کے دوران افغانستان کے تقریباً تمام مجاہدین رہنماؤں نے پاکستان کو ہی اپنا مسکن بنایا ہوا تھا اور ان دنوں یہاں سے تمام جنگ کی منصوبہ بندی ہوا کرتی تھی۔ ان مجاہدین رہنماؤں میں حکمت یار پر یہاں کے حکمرانوں کی جانب سے خصوصی نظر کرم کی جاتی تھی۔
گلبدین حکمت یار نے 2016 میں طویل جلا وطنی ختم کرتے ہوئے ڈاکٹر اشرف غنی کی افغان حکومت سے امن معاہدہ کیا اور کابل واپس آ گئے تھے۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد وہ تقریباً 20 سال تک رپوش اور جلاوطن رہے۔ اس دوران وہ ایران یا شاید پاکستان میں خاموشی کی زندگی گزارتے رہے۔
افغان حکومت سے معاہدے کے بعد وہ پہلی مرتبہ پاکستان کے دورے پر آئے۔ اگرچہ اس وقت ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اسلام آباد میں ان کا پرتپاک انداز میں استقبال کیا گیا اور انہیں ریاستی وزیر جیسا پروٹوکول دیا گیا۔ انہوں نے تین روزہ دورے کے دوران وزیر اعظم پاکستان عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، افغانستان کے لئے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق خان سمیت دیگر اعلیٰ سرکاری حکام سے ملاقاتیں کیں۔
کابل اور اسلام آباد کے درمیان حالیہ دنوں میں دو طرفہ سرکاری دوروں میں تیزی آ رہی ہے۔ اس سے پہلے قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبد اللہ اللہ بھی پاکستان کے دورے پر آئے تھے جب کہ اس وقت افغان پارلیمان کے اراکین پر مشتمل ایک وفد بھی اسلام آباد کے دورے پر ہے۔
افغانستان کے لئے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق خان کا کہنا ہے کہ ان دوروں کا مقصد پڑوسی ملک سے نئے سرے سے مضبوط بنیادوں پر تعلقات کو استوار کرنا ہے جس کے لئے مختلف فورمز پر رابطے تیز کیے جا رہے ہیں۔ اسلام آباد نے حالیہ دنوں میں نئی ویزہ پالیسی کا بھی اعلان کیا ہے جس کے تحت پہلی مرتبہ پاکستان آنے والے افغانوں کے لئے ایک سے پانچ سال کے ملٹی پل ویزے جاری کیے جا رہے ہیں جس کا پڑوسی ملک نے بھی گرمجوشی سے خیرمقدم کیا ہے۔ اس کے علاوہ دو طرفہ تجارتی سرگرمیوں پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
گلبدین حکمت یار نے اپنے تین روزہ دورے کے دوران اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس پریس کانفرنس میں چند منتخب سینیئر صحافیوں کو مدعو کیا گیا تھا جس میں اتفاق سے میں بھی موجود تھا۔ حزب اسلامی کے سربراہ نے تقریباً ایک گھنٹے تک صحافیوں کے تندوتیز سوالوں کا سامنا کیا۔
حکمت یار نے دوحا میں جاری حالیہ افغان امن عمل، افغانستان کے عمومی حالات اور حکومت کی کارکرگی پر تفصیل سے گفتگو کی۔ انہوں نے صدر اشرف غنی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے انہیں تمام مسائل کا جڑ قرار دیا اور کہا کہ کابل کی حکومت ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں میں ہے۔ تاہم، انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ ان کا اشارہ کس جانب ہے۔ پریس کانفرنس کے دوران امریکہ اور ڈاکٹر اشرف غنی مسلسل ان کے نشانے پر رہے۔
اگرچہ گلبدین حکمت یار افغان صدر کے سیاسی حریف بھی ہیں اور افغانستان کے حالیہ صداراتی انتخابات میں ان سے شکست بھی کھائی تھی لیکن حکمت یار کی جانب سے اسلام آباد میں بیٹھ کر افغان حکومت پر اس طرح کے الزامات لگانا کسی وجہ سے پاکستان کے لئے مشکل کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ اور تناؤ کی کفیت میں رہے ہیں۔ تاریخی طورپر اگر دیکھا جائے تو اس سے انکار ممکن نہیں کہ بیشتر اوقات دونوں پڑوسیوں میں اعتماد کا شدید فقدان رہا ہے۔
لیکن حالیہ دنوں میں پاکستان نے افغان رہنماؤں اور سرکاری اہلکاروں کو مدعو کرنے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک کے مابین غلط فہمیوں کا ازالہ کر کے ایک مستقل اور پائیدار اعتماد کی فضا قائم کی جا سکے۔ اسلام آباد نے دوحا میں جاری افغان امن عمل میں توقعات سے بڑھ کر مخلصانہ کوششوں کا مظاہرہ کیا ہے جسے افغانستان اور امریکہ بار بار تسلیم بھی کرتا رہا ہے۔ تاہم، ایسے میں اگر اسلام آباد سے پھر سے ایسے منفی پیغامات جائیں گے تو اس سے دوبارہ سے کشیدگی بڑھ سکتی ہے جس کا بلاشبہ نقصان پاکستان کو ہی ہوگا۔
گذشتہ تقریباً چالیس سالوں میں شاید پہلی مرتبہ افغانستان میں تمام سٹیک ہولڈرز کے ہاتھوں امن کا ایک ایسا نادر موقع آیا ہے جس میں تھوڑی سی مزید کوششیں کرنے سے افغان عوام دہائیوں کی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پا سکتے ہیں۔ لہٰذا موجودہ صورتحال کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں ممالک کو اختلافی مسائل سے گریز کرنا چاہیے ورنہ سالوں کی محنت پھر سے پانی کی نذر ہو سکتی ہے۔ پاک افغان تعلقات کو ہمیشہ سے ماچس کی ایک تھیلی کی مانند سمجھا جاتا رہا ہے۔
پریس کانفرس میں حکمت یار سے جب پوچھا گیا کہ 1992-93 میں ان کے اور مرحوم احمد شاہ مسعود کے مابین کابل کے تخت کے لئے ہونے والی خونریز خانہ جنگی میں ہزاروں بے گناہ شہری مارے گئے تھے، کیا سترہ سال کے بعد اب وہ افغان عوام سے اس غیر ضروری جنگ پر معافی مانگیں گے؟ تو انہوں نے تو پہلے ان لڑائیوں کو خانہ جنگی ماننے سے انکار کر دیا، پھر الزام لگایا کہ اس لڑائی میں افغانستان کے پڑوسی ممالک ملوث تھے جو اس وقت وہاں امن دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1992 میں ڈاکٹر نجیب کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس وقت پاکستان نواز افغان مجاہدین گروپوں کے مابین اقتدار کے لئے ہونے جنگوں میں ہزاروں بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ ان جنگوں کا تذکرہ اکثر اوقات افغانستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں آج بھی مـختلف حوالوں سے کیا جاتا ہے۔
معروف صحافی اور افغانستان پر لکھے جانے والی مشہور کتاب ’ طالبان، شدت پسند اسلام، تیل اور وسطی ایشا میں بنیاد پرستی‘ کے مصنف احمد رشید نے لکھا ہے کہ حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کے درمیان ہونے والی خانہ جنگی نے افغان معاشرے پر انمٹ نقوش چھوڑے جس کے نتیجے میں جنگ زردہ ملک میں عدم برداشت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ اس خانہ جنگی کے فوری بعد 1995 میں احمد شاہ مسعود کی افواج نے کابل کا محاصرہ کیا اور ہزارہ کمیونٹی کا بے دردی سے قتل عام کیا جس سے افغانستان میں عام اور بے گناہ شہریوں کی ہلاکتیں بڑھتی گئیں۔
احمد رشید کے مطابق 1997 میں شمالی صوبوں میں ہزارہ برادری نے طالبان جنگجوؤں کا گھیراؤ کر کے ان کو بڑی تعداد میں چن چن کر ہلاک کیا جب کہ اگلے سال انتقام کی آگ میں جلے ہوئے طالبان نے انہی علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد شمالی افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور ہزارہ اور ازبک قبیلوں کا گھراؤ جلاؤ کرتے ہوئے انہیں غیر انسانی سزائیں دیں۔
انہوں نے ایک واقعے کا خصوصی طورپر ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ طالبان نے ایک کنٹینر میں تین سو کے قریب مخالفین کو بند کر دیا تھا اور جب دروازہ کھولا گیا تو ان میں صرف تین افراد زندہ بچ گئے تھے جب کہ دیگر تمام افراد دم گھٹنے سے لقمہ اجل بن گئے تھے۔
افغانستان میں نوے کے عشرے میں شروع ہونے والے قتل عام کا سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ جنگوں کے ماری ہوئی افغان قوم کے لئے امن آج بھی ایک سچے خواب سے کم نہیں۔