وزیر داخلہ شیخ رشید کے مطابق ان احتجاجی مظاہروں کے دوران 733 گرفتار افراد میں سے 669 کو رہا کر دیا گیا ہے۔
وزیر داخلہ نے مزید کہا جن لوگوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے فورتھ شیڈول کے تحت مقدمات درج کیے گئے ان کو خارج جبکہ تحریک لبیک کے حوالے سے نکات کو وفاقی کابینہ میں لے کر جایا جائے گا۔
یہ ذہن میں رہے کہ تحریک لبیک پاکستان ممتاز قادری کو پھانسی دینے کے بعد وجود میں آئی تھی۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) حکومت کے خلاف انھوں نے الیکشن ایکٹ میں مبینہ تبدیلی پر فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیا تھا۔ اس دھرنے کی قیادت کرنے والے مولانا خادم رضوی نے اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفیٰ کے بعد دھرنا ختم کر دیا تھا۔
دھرنے پر ردعمل دیتے ہوئے فوج نے وفاقی حکومت کو تنبیہ کی تھی کہ مظاہرین کے ساتھ مسائل افہام وتفہیم کے ذریعے طے پائے جائیں۔ دھرنے کے اختتام پر فوج کے اعلیٰ افسر کی جانب سے مظاہرین میں رقم تقسیم ہوئی تھی جس پر سیاسی تجزیہ کاروں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ اس دھرنے کو مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل تھی اور دھرنے کا مقصد مسلم لیگ (ن) کے منتخب حکومت کو کمزور کرنا تھا۔
مبصرین کی رائے ہے کہ ماضی میں ملک میں بریلوی مکتبہ فکر خاصی پرامن رہی مگر مولانا خادم حسین رضوی نے بریلوی مکتبہ فکر کو شدت پسندی کی طرف مائل کیا۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ریاست تحریک طالبان، لشکر جھنگوی اور لشکر طیبہ کو ختم کر سکتی ہے تو تحریک لبیک پاکستان کو لگام کیوں نہیں لگا سکتی؟
کالعدم جماعتوں پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار سبوخ سید سمجھتے ہیں کہ ختم نبوت اور توہین رسالت کے موضوعات اتنے حساس ہیں کہ اس پر بات کرنے والے کے لئے ناصرف مسائل شروع ہو جاتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اگر کسی نے اس موضوع پر بات کی تو اس کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ اس لئے میں سمجھتا ہو کہ تحریک لبیک ان دو موضوعات کو لے کر سیاست کر رہی ہے۔ اس لئے ان کو کنٹرول کرنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔
سبوخ سید کے مطابق توہین رسالت اور ختم نبوت پر سو سال سے زیادہ عرصے کی تحریک چلی جس کے بعد 1974ء میں آکر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ اس موضوع پر دیوبندی، بریلوی اور اہل سنت سمیت دیگر جماعتوں نے بہت کام کیا اور اس پر ایک کثیر تعداد میں لٹریچر بھی بن چکا ہے۔ تو اب اگر کوئی جماعت ان موضوعات پر سیاست کریگی تو ان کو کنٹرول کرنا ایک مشکل ٹاسک لگ رہا ہے۔
کیا ریاست ان سیاسی تحریکوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے؟
سینئر صحافی اور مصنف اعزاز سید اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کالعدم اور شدت پسند تنظیموں کے سر پر ہاتھ رکھ کر ملکی اسٹیبلشمنٹ اپنی سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہے اور جب تک اسٹیبلشمنٹ کالعدم اور شدت پسند تنظیموں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہیگی یہ تنظیمیں آگے بڑھتے رہیں گی۔ اعزاز سید کے مطابق جب تک اسٹیبلشمنٹ ملکی سیاست میں ایسے گروہ کے ذریعے مداخلت کریگی ان تنظیموں کا جادو بولتا رہیگا۔
سبوخ سید بھی اعزاز سید کے نکتے سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ریاستی اداروں نے ماضی میں بھی شدت پسند گروہ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا اور آج بھی کر رہی ہے کیونکہ ریاست سمجھتی ہے کہ یہ واحد اور مضبوط راستہ ہے جس کے ذریعے لوگوں کو زیادہ تعداد میں جلدی اکھٹا کیا جا سکتا ہے اور جلدی سے اپنے اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
سبوخ سید کے مطابق جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے جب بھی کوئی سیاسی تحریک چلانی ہو تو وہ یہی کارڈ کھیلتے ہیں اور 1998-99ء میں بھی نواز شریف حکومت کے خلاف یہی کارڈ استعمال کیا اور عمران خان کے خلاف سیاسی تحریک میں بھی یہی کارڈ استعمال کر رہا ہے اور سیاسی جماعتوں کی طرح اسٹیبلشمنٹ بھی یہی سمجھتی ہے کہ ایسے موضوعات کو اپنے مقاصد کے لئے آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
کیا تحریک لبیک پر پابندی سے اس سیاست کا راستہ روکا جاسکتا ہے؟
اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک اعلیٰ عہدیدار اس نکتے سے اتفاق نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ آپ شخصیات اور تنظیموں پر پابندی لگا سکتے ہیں لیکن اس سوچ اور سیاست پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ ان کے مطابق جب بھی ان کو ضرورت ہوگی وہ اس موضوع کو سب سے پہلے فہرست میں رکھ کر دیگر سیاسی مقاصد کو پوری کرینگے۔ تجزیہ کار اور صحافی سبوخ سید سمجھتے ہیں کہ اس موضوع سے منسلک ہر تحریک کے شدت کو کم کرنا اتنا آسان نہیں کیونکہ ان کی جڑیں بہت گہری ہے اور پورے سماج، سیاسی ڈھانچے پر اس کے اثرات ہے۔
کیا ریاست ایسے تنظیموں کا قلع قمع کرسکتی ہے؟
سبوخ سید نے اس نکتے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ریاست بہت طاقتور ہوتی ہے اور اس کی طاقت سے بڑی بڑی تنظیمیں بھی گھبراتی ہیں لیکن اگر ریاست چاہے کیونکہ اگر ریاست کی چھتری مہیا ہوتی رہی تو ان کو ختم کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ سبوخ سید کے مطابق ملک میں لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، لشکر طیبہ اور جہادی تنظیم تحریک طالبان پاکستان کو جب تک ریاستی سرپرستی حاصل رہی وہ پروان چھڑتی اور متحرک رہی اور جب ریاست نے اپنی سرپرستی چھین لی تو یہ تنظیمیں نہ صرف کمزور اور ختم ہوئیں بلکہ ان کا ڈھانچہ ہی مٹ گیا۔ سبوخ سید کے مطابق ریاست کو سوچنا چاہیے کہ جب بھی ایسی تنظیموں کی پشت پناہی کی گئی نقصان ریاست اور عوام نے اٹھایا ہے اور اس کے نتائج بھی خطرناک ہوتے ہیں۔
سینیٹر مولانا غفور حیدری سمجھتے ہیں کہ تحریک لبیک سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کا نعرہ بہت مقدس ہے۔ ان کے مطابق جب حکومت مطالبات مان کر اس پر عملدرآمد نہیں کریگی تو پھر اس کا رد عمل بھی ایسے آئے گا جو آ رہا ہے۔