پنجاب کے دیہی علاقوں میں صحافی برادری خوف میں مبتلا رہتی ہے

مقامی صحافی عبدالغفار مہر کے مطابق 'میں نے ان لوگوں کے خلاف درخواست دی لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ بس مجھے ہی مسئلے ہوئے اور کچھ نہیں ہوا اور اس وجہ سے میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ ابھی بھی کبھی میرے خلاف کوئی نوٹس آتا ہے تو کبھی کوئی۔ میرا قصور ایک سٹوری کرنا تھا جس سے یہ ساری رنجش شروع ہوئی تھی'۔

05:51 PM, 25 Oct, 2023

صبا چودھری

'ہر وقت خوف میں مبتلا رہتے ہیں پتہ نہیں کون کہاں حملہ کر دے'، یہ کہنا ہے عبدالغفار مہر کا جن کا تعلق تحصیل رحیم یار خان سے ہے اور وہ روز ٹی وی اور ڈسکور پاکستان کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ 29 جنوری 2023 کو وہ اپنے دو اور ساتھی صحافیوں دھنی بخش مہر اور عبداللہ سردار کے ساتھ صادق آباد کے علاقے میں ایک زمین کے قبضے کے تنازعے کی کوریج کرنے پہنچے جس پر ان کو کالز آ رہی تھیں کہ ہماری زمین کا مسئلہ ہے اور آپ وہاں کوریج کے لیے آ جائیں۔ ان پر وہاں کچھ نقاب پوش لوگوں نے حملہ کر دیا اور کافی دیر تک ان پر اور ان کے ساتھیوں پر تشدد ہوتا رہا۔ حملہ آور ان کی ویڈیوز بھی بناتے رہے۔

عبدالغفار مہر کا کہنا ہے؛ 'یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس جگہ رش ہونے کی وجہ سے ہم اس دن بچ گئے، اس سارے معاملے میں مقامی پولیس کے ایک انسپکٹر کا ہاتھ تھا اور ہمیں کچھ لوگ بتاتے ہیں کہ برہنہ کر کے ہم پر تشدد کرنے کی ویڈیوز آج بھی کچھ لوگوں کے پاس ہیں'۔ یہ ویڈیوز ابھی تک مہر اور ان کے ساتھیوں تک نہیں پہنچ پائیں۔

انہوں نے اس سارے معاملے کی ایف آئی آر دفعات 149,148,506,342,341 کے تحت یکم جنوری 2023 کو مقامی پولیس سٹیشن میں درج کروائی تھی۔ اس ایف آئی آر کے مطابق 'نا صرف حملہ آوروں نے مہر اور ان کے ساتھی صحافیوں پر تشدد کیا بلکہ ان کا سامان بھی لے لیا اور دھمکیاں بھی دیتے رہے کہ آئندہ بڑی خبریں لگانے سے گریز کریں ورنہ جان سے مار دیں گے'۔ تاہم مہر کا ماننا ہے کہ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ہی انہوں نے کچھ اپنے ہی دوستوں اور دیگر مقامی افسران کے خوف اور شدید ذہنی دباؤ میں آ کر صلح کر لی۔ آج بھی وہ اور ان کے ساتھی صحافی غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ ہر وقت خوف میں رہتے ہیں اور ان کو سچ کا ساتھ دینے میں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔

اسی طرح صحافی اور پریس کلب بھونگ کے صدر اصغرعلی جعفری پر دو سال پہلے بھونگ پولیس سٹیشن میں ایک مقدمہ درج ہوا۔ ان پر یہ FIR میونسپل کمیٹی کے ایک اہلکار کی طرف سے تجاوزات آپریشن میں رکاوٹ ڈالنے پر درج کی گئی جس کے بعد ان کو گرفتار کر کے ان پر تشدد کیا گیا۔ اصغر جعفری کا کہنا ہے کہ 'جب واقعہ مین سٹریم میڈیا تک پہنچا اور پاکستان میں صحافی برادری نے اس پر احتجاج کیا تو ان کو بعد میں بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیا گیا تھا'۔

عبدالغفار مہر کے مطابق 'میں نے ان لوگوں کے خلاف درخواست دی لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ بس مجھے ہی مسئلے ہوئے اور کچھ نہیں ہوا اور اس وجہ سے میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ ابھی بھی کبھی میرے خلاف کوئی نوٹس آتا ہے تو کبھی کوئی۔ میرا قصور ایک سٹوری کرنا تھا جس سے یہ ساری رنجش شروع ہوئی تھی'۔

وہ کہتے ہیں 'شہر اور گاؤں میں صحافت کرنے کا بہت فرق ہے۔ دیہی علاقوں میں اگر آپ کسی زمیندار کی خبر بھی لگا دیں تو آپ کو بہت مسئلے ہوں گے. آپ کو دھمکیاں بھی ملیں گی اور آپ کو ہر لحاظ سے تنگ کیا جائے گا'۔

فریڈم نیٹ ورک پاکستان کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں آزادی صحافت کی خلاف ورزیاں22-2021 میں 86 فیصد سے بڑھ کر 23-2022 میں 140 فیصد تک پہنچ گئیں جو کہ تقریباً 63 فیصد سالانہ اضافے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں بھی ان کیسز کی شرح 25 فیصد تھی اور پنجاب میں ان کیسز کی تعداد 35 تھی۔

سینیئر صحافی سبوخ سید کا کہنا ہے کہ 'پاکستان میں سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ آپ نے FIR کس بنیاد پر درج کروائی لیکن ہمارے ہاں ایک ٹویٹ پر آپ کو اٹھا لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی آزادی اظہار رائے کی بات کرتا ہے تو اس پر اس بنیاد پر ایف آئی آر اور حملہ کرنا غلط ہے'۔

پاکستان میں سیفٹی کے مسئلے تب پیدا ہوتے ہیں جب آپ کسی قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کے بارے میں خبر دیتے ہیں۔ کافی علاقوں میں سیفٹی مراکز بنے ہوئے ہیں۔ مضافاتی علاقوں کے صحافیوں کو ان سے رابطہ کرنا چاہئیے۔ ان کا ماننا ہے کہ پاکستان میں اگر صحافی ذمہ داری سے کام لیں تو ان کے خلاف مقدمات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے صدر زاہد رفیق بھٹی کا کہنا ہے کہ پنجاب یونین آف جرنلسٹس نے پنجاب گورنمنٹ کو ایک ریکوزیشن دی ہے کہ آپ جرنلسٹس کی پروٹیکشن کے لئے ایک کمیٹی بنائیں۔ اگر کوئی اس طرح کا نا خوش گوار واقعہ ہوتا ہے تو ہماری ہنگامی میٹنگ ہوتی ہے اور ہم اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کمیٹی میں وزیر اعلیٰ پنجاب، انفارمیشن منسٹر، ایڈیشنل آئی جی، لاہور پریس کلب کے صدر اور دیگر ریاستی اداروں کے سربراہان شامل ہوتے ہیں۔

اسی طرح ہماری ایک کمیٹی مختلف ڈسٹرکٹس کے ساتھ کوآرڈی نیٹ کرتی ہے اور جہاں کوئی بھی مسئلہ ہو اس کو دیکھتی ہے۔

وہ کہتے ہیں پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ملک ہے لیکن پریس کلب اور یونینز کوشش کر رہی ہیں کہ ان خطرات کو کم سے کم کیا جائے۔

لاہور پریس کلب کے صدر اعظم چوہدری کا کہنا ہے 'جہاں پر بھی جرنلسٹ پر اپنے پروفیشنل معاملات کی وجہ سے حملے اور ایف آئی آر ہوتی ہیں پریس کلب ان کا بھرپور ساتھ دیتے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال 9 مئی واقعات کے بعد صحافیوں پر ہونے والے مقدمات اور گرفتاریاں ہیں جس پر صرف پریس کلب نے یہ ساری لڑائی لڑی'۔

وہ کہتے ہیں، 'پاکستان میں بدقسمتی ہے کہ پروفیشنل جرنلسٹ پر بہت سے حملے ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ بہت زیادہ قتل بھی۔ ہم نے لاہور پریس کلب کے پلیٹ فارم سے ہر حکومت سے جرنلسٹ سیفٹی کے بارے میں ایسی قانون سازی کی درخواست کی جس میں اس کی اور اس کی فیملی کی لائف انشورنس کی جائے اور اس کے مال کا تحفظ بھی ریاست کرے۔ لیکن آج تک کسی بھی حکومت نے اس پر کوئی بھی سنجیدہ ردعمل نہیں دیا اور نا ہی ایسی کسی بھی قانون سازی پر توجہ دی۔ حکومتوں کی جانب سے بڑی مایوسی ہوتی ہے۔ ہم ابھی بھی کوشش کر رہے ہیں کہ مستقبل میں کوئی حکومت اس پر توجہ دے اور پاکستان میں صحافیوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائے'۔

مزیدخبریں