پاکستان کا آئین بڑا واضح ہے کہ پارلیمان تمام نظام میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ خورشید شاہ کے جملے کے مطابق 'پارلیمنٹ ماں ہے'، ریاست کے دیگر ستون اس کی مرہون منت ہیں۔ جو آئین عدلیہ کو ریاست کا ستون ڈکلیئر کرتا ہے وہ آئین یہ واضح کرتا ہے کہ آئین و قانون کے بنانے سے لے کر اس کی تجدید کا اختیار صرف عوام کے منتخب کردہ پارلیمان کو ہے۔ آئین واضح ہے کہ پارلیمنٹ میں کی گئی کوئی آئینی ترمیم کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکتی، آئین واضح ہے کہ مجلس شوریٰ کی اتھارٹی کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔
اس حوالے سے سینیٹر عرفان صدیقی کے حالیہ الفاظ بڑی اہمیت کے حامل ہیں جہاں انہوں نے وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمان نے عدلیہ کو بنایا ہے، عدلیہ نے پارلیمان کو نہیں، ہم نے چاہا تو آپ کی تعداد 17 ہے، ہم نے چاہا تو آپ کی تنخواہ اور پنشن ہے۔
حکومت کا یہ سخت رویہ یقیناً جہاں بہت سے خدشات کو جنم دیتا ہے وہیں 76 سال سے پارلیمان کی حیثیت جو مفلوج ہو چکی تھی، اس میں ایک نئی جان بھی ڈالتا ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک کبھی آمروں نے اس پارلیمان پر شب خون مارا، کبھی عدالتی نظام نے اپنی حدود سے تجاوز کر کے آئین و قانون کی پامالی کی، افسوس کہ پارلیمان ہر بار سپریم ہوتے ہوئے بھی بیک فٹ پر رہا اور عدالتوں نے ایکٹیو ازم کی بنیاد ڈالی اور آئین کی تشریح کے نام پر آئین کو ری رائٹ کرنا شروع کر دیا۔
آخر آئین کی کون سی شق عدلیہ کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ پارلیمان میں ہونے والی ووٹنگ کا فیصلہ کرے؟ کس کی حکومت بنے گی، کس کی نہیں اس کا فیصلہ کرے؟ پنجاب میں حمزہ شہباز اور پرویز الہٰی کے مابین وزارت اعلیٰ کی جنگ کو جس طرح عدلیہ نے ہینڈل کیا، یہ حالیہ تاریخ میں 26 ویں ترمیم کی جانب پہلا قدم تھا۔ اس کے بعد ججز کے مابین اختلافات اور نورا کشتی نے پارلیمان کو مجبور کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اداروں کو ان کی حدود اور پارلیمان کی طاقت کا احساس دلایا جائے۔ مخصوص نشستوں کے فیصلے نے تابوت میں آخری کیل کا کام کیا اور پارلیمان نے اپنے سپریم ہونے کا لوہا منوایا۔
افتخار چوہدری سے ثاقب نثار اور جسٹس کھوسہ سے عمر عطاء بندیال تک عدلیہ نے جس طرح ریاست کو یرغمال بنائے رکھا اور جوڈیشل مارشل لاء کا نفاذ کیے رکھا اس نے پاکستان کو 25 سال پیچھے دھکیل دیا۔ عالمی رینکنگ میں پاکستان کی عدلیہ کا نمبر 137 کی گراوٹ پر اسی جوڈیشل ایکٹیو ازم کی وجہ سے آیا جس کا خاتمہ 26 ویں آئینی ترمیم سے ہوا۔
پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سیاست دان اور آئین کے بنانے والے تو عدالتوں سے سزائیں پاتے رہے مگر انصاف کے نام پر ججز نے جو ریاست پر داغ لگایا وہ انتہائی سیاہ ہے جس کی ایک مثال بھٹو کیس کا 4 دہائیوں بعد آیا فیصلہ ہے۔
آج 26 ویں آئینی ترمیم سے ججز بھی احتساب کے دائرے میں آ گئے ہیں۔ آئینی بینچ کا قیام پاکستان میں عدالتی نظام کیلئے انتہائی خوش آئند ہے کہ جہاں 10، 10 سال بعد عوام کے کیسز کی باری آتی ہے، جہاں دادا کا دائر کیا کیس پوتے کو بھگتنا پڑتا ہے، وہاں اب یہ تفریق واضح ہے کہ ججز کو جو میڈیا کا چسکا اور ریمارکس کی لت لگی تھی اب اس میں کمی آئے گی اور انصاف کی فراہمی کا عمل تیز ہو گا۔ یہ نظام اگر اپنی آب و تاب سے جاری رہا تو 1 سال بعد پاکستان کی عدلیہ کا انصاف کی فراہمی میں عالمی رینک کئی درجے با آسانی بہتر ہوتا نظر آئے گا۔
اس ترمیم پر سیاسی نورا کشتی سوائے اپنے سیاسی مفاد کے کچھ نہیں ہے۔ تین موسٹ سینیئر ججز میں سے ایک کا چیف بننا کسی صورت بھی تشویش ناک نہیں ہے کیونکہ موسٹ سینیئر ججز وہی ہوں گے جو نظام کے تحت قابلیت سے اوپر آئیں گے۔ جہاں تک موجودہ چیف جسٹس کی تعیناتی کا معاملہ ہے اور جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی بجائے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس چنا گیا یہ سوائے سیاسی و سماجی پریشر کے کسی اور بات کا نتیجہ نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ انتہائی قابل اور غیر جانبدار جج ہیں، میں بطور کورٹ رپورٹر ان کے فیصلے اور سوچ لاہور ہائیکورٹ میں دیکھ چکا ہوں مگر ان کے کریئر کی تباہی کے ذمہ دار تحریک انصاف کے سوشل میڈیا واریئرز اور عدالت کے چند یوٹیوبرز ہیں۔ آج نہیں تو کل ریٹائرڈ ہونے کے بعد یہ ججز اس بات کا اظہار ضرور کریں گے۔