بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

04:53 AM, 25 Sep, 2018

اصلاح الدین مغل
اس قدر خوف کا عالم ہے کہ دم گھُٹتا ہے۔ کوئی بات کرنے سے پہلے گھبراہٹ میں چاروں طرف نظر دوڑانی پڑتی ہے۔ یوں جیسے اپنی ذات کے خول میں بند ہو گیا ہوں۔ آئین پاکستان تو مجھے بات کرنے کی آزادی دیتا ہے لیکن وقت کا قانون میری زباں بندی کر دیتا ہے۔ کچھ کہنا چاہوں تو نتائج خوفزدہ کر دیتے ہیں اور چپ رہنے کی کوشش کروں تو ضمیر ملامت کرتا ہے۔

یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

بقول شخصے یہاں غدار کو غدار کہنا بھی غداری میں شمار ہوتا ہے۔ آج محبِ وطن وہ ہے جو قانون کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھے۔ قانون کی پاسداری کرنے والا غدار اور مردود گنا جاتا ہے۔ 'حاکم وقت' کی حمد و ثنا کرو تو انعام و اکرام ورنہ پھانسی کا پھندہ زیادہ دور نہیں۔ کیا ہم کسی مقبوضہ علاقے کے باسی ہیں۔ ہر کوئی اشاروں کی زبان میں بات کرتا ہے۔ جاوید ہاشمی جیسا بہادر آدمی بھی صرف کاندھوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

موجودہ حکومت کیسے معرض وجود میں آئی۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ اس مانگے تانگے کی حکومت کے 'کپتان' کا رویہ کیا کسی طور بھی جمہوری کہا جا سکتا ہے؟ موصوف نے کل لاہور میں بیوروکریٹس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آئندہ اگر کسی افسر نے کوئی معاملہ عوام کی عدالت میں لانے کی کوشش کی تو اسے برطرف کر دیا جائیگا۔ کیوں بھئی؟ یہ سرکاری افسران کیا آپ کے ذاتی ملازم ہیں جنہیں آپ جب چاہیں گے نوکری سے نکال دینگے؟ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا آپ کنٹینر پر کھڑے ہو کر سرکاری افسران کو حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسا رہے تھے لیکن آج جب شومئی قسمت آپ تخت طاؤس پر براجمان ہیں تو آپ کو اپنی ہی کہی باتوں سے غداری کی بو آ رہی ہے۔

عوام کے چندے سے بنائے جانے والے ڈیم پر عوام کوئی بات کرینگے تو ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائیگا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ دنیا کے کس قانون کے تحت مجھے میری رقم کا حساب لینے سے روکا جا سکتا ہے۔ ہر ادارہ اپنے کام میں کم اور دوسرے کے کام میں زیادہ دلچسپی لیتا نظر آتا ہے۔ ہمارے ایک چیف ہسپتالوں، یونیورسٹیوں اور قومی ائر لائن کے سربراہ تعینات کرنے میں مشغول ہیں تو دوسرے خارجہ امور کے معاملات طے کرنے میں۔

ووٹ کی طاقت سے حاصل کیا گیا ملک اب ہتھوڑے اور بندوق کے زور پر چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جعلی انتخابات کے ذریعے بنایا گیا وزیر اعظم جب خود کو عقل کل سمجھ کر ٹوئٹ کے ذریعے حالات کو اس نہج پر لے آئے کہ جنگی ماحول پیدا ہو جائے تو عوام کیوں نہ خوف میں مبتلا ہوں؟ جو بات پچھلی حکومت کی ناگوار گزرتی تھی آج خوب لگتی ہے۔ عوام نے آپ کو ووٹ دیئے تھے تاکہ آپ وہ کچھ کر سکیں جو آپ کہتے آئے ہیں لیکن ہوا کیا؟ آپ تو صرف ایک مہینہ میں ہی بے نقاب ہو گئے۔ جن اشیاء کی گرانی کا آپ رونا روتے تھے اس میں کمی تو کیا کرنی تھی عوام پر مزید مہنگائی کے بم برسانے شروع کر دیئے۔

ایک شیطانی چکر ہے جو نہ دکھائی دے رہا ہے نہ سمجھ میں آ رہا ہے۔ کون کیا کر رہا ہے کسی کو پرواہ نہیں؛ ملک کی گاڑی ہے کہ ہچکولے کھاتی چلی جا رہی ہے۔ کسی کے پاس کوئی پروگرام نہیں۔ نہ خارجہ امور سے متعلق نہ داخلہ سے۔ خزانے کی کنجی ایک ایسے صاحب کے حوالے کر دی گئی ہے جو پہلے ہی اپنی بد انتظامی کے باعث نوکری سے نکالے گئے ہیں۔ ہمارا ازلی دشمن ہمیں تڑیاں لگا رہا ہے لیکن ہمارا وزیر دفاع کہیں نظر نہیں آ رہا۔

زباں بندی کے قانون پر عمل پیرا رہنے کی کوشش تو بہت کی کیونکہ میری فریاد سے کسی کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگنے والی اور پھر جان کس کو پیاری نہیں ہوتی لیکن کم بخت دل کب میری سنتا ہے اور پھر جان کے خوف سے چپ ہو کر بیٹھ جاوؑں تو کیسے کہ بقول شاعر؛

جو چپ رہا تو مجھے مار دیگا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا
مزیدخبریں