سی سی پی او نے یہ لب و لہجہ اس وقت اپنایا جب سب انسپکٹر فہد ورک میٹنگ کے دوران میڈیا مانیٹرنگ سیل کے انچارج اور سی سی پی او سمیت دیگر افسران کو بریف کر رہے تھے۔ دوران بریفنگ سی سی پی او نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے انگریزی زبان میں اس کا جواب دینے کی کوشش کی ۔سی سی پی نے انہیں "کھوتے کا بچہ" کہہ کر مخاطب کیا اور کہا کہ میں تم سے جو سوال کر رہا ہوں تم اس کا دوسرا جواب دے رہے ہو۔ اس کے بعد سی سی پی او نے انہیں میٹنگ سے نکل جانے کا کہا اور وہ چلے گئے۔
اس رویے سے دلبرداشتہ ہو کر سب انسپکٹر فہد ورک نے پولیس کی نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ وہ افسران کے ہاتھوں اپنے والد کی بے حرمتی برداشت نہیں کر سکتے۔
سب انسپکٹر فہد ورک کا کہنا تھا کہ وہ ایک متوسط اور عزت دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں انکے والد ایک سکول ٹیچر ہیں۔ وہ مارچ سے پولیس کے میڈیا مانیٹرنگ سیل دیکھ رہے تھےاور سی سی پی او سمیت بہت سے اعلی افسران کے ویب کے کام کو چلا رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے کام کی بہت سے سینئر افسران تعریف کر چکے ہیں ایسے میں سی سی پی کا یہ رویہ نا قابل برداشت ہے۔
فہد ورک کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2015 میں امریکہ سے ماحولیاتی کیمیا میں ایم فل کیا مگر بیرون ملک چھوڑ کر وطن واپس لوٹے اور پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا جذبہ لئے شعبہ پولیس کا انتخاب کیا اور میرٹ کی بنیاد پر پورے صوبے میں دسویں پوزیشن حاصل کر کے بھرتی ہوئے۔ ایسے میں سینئر پولیس افسران کا یہ رویہ بہت مایوس کن ہے اور شاید یہی رویہ پولیس پر لوگوں کا اعتماد کم کرتا ہے۔
اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور ایک بار پھر سے خبروں کی زد میں آگئے۔ ان کے اس رویے پر پولیس اور دیگر حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سی سی پی لاہور آفس کے مطابق سی سی پی او اپنے بیانات پر قائم ہیں اور کسی بھی انکوائری میں اپنا موقف پیش کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ تاہم سی سی پی او کے خلاف لاہور موٹروے سانحہ پر غیر ذمہ دارانہ بیان دینے سمیت ان کے رویے پر کئی پولیس افسروں کی جانب سے آئی جی پنجاب کو ان کے خلاف بےشمار شکایات درج کی جا چکی ہیں۔