فیڈرل کمیٹی کے ممبر بابا جان اور دس دیگر سیاسی کارکن ، غذر ڈسٹرکٹ کی دماس جیل میں عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔ انہیں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت کی نےعطآ اباد سانحہ سے متاثرہ شخص اور ان کے بیٹے کی پولیس فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکت کے خلاف 11 اگست ، 2011 کو علی آباد ہنزہ میں احتجاج میں حصہ لینے کے بے بنیاد الزامات پر عمر قید کی سزا ہوئی ہے۔
عطاآباد سانحہ کےمتاثرین 4 جنوری ، 2010 کو شاہراہ قراقرم پر اس وقت کے وزیر اعلٰی مہدی شاہ کی متوقوع دورہ پر دھرنا دیا تھا جس پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسوؤں اور گولیوں کی بوچھاڑ کردی ، جس سے دو مظاہرین ہلاک ہوگئے ۔ جس کے رد عمل میں ہنزہ کے عوام نے متعدد قصبوں میں زبردست مظاہرہ شروع کیا جس میں متعدد سرکاری عمارتوں اور پولیس اسٹیشنوں کو نذر آتش کردیا گیا۔ اس حقیقت کے باوجود کہ بابا جان احتجاجی مقام پر موجود نہیں تھے ، انہیں انسداد دہشت گردی کے ایک جج نے قصوروار ٹھہرایا اور 10 دیگر نوجوانوں کے ساتھ عمر قید کی سزا دی۔
اپریل 2015 میں چیف کورٹ نے انہیں بری کردیا۔ لیکن ہُنزہ میں گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی نشست کے لئے ہونے والے ضمنی انتخاب سے چار دن قبل ، سپریم اپیلٹ کورٹ نے 25 مئی ، 2016 کو اے ٹی سی کے فیصلے کو برقرار رکھا ، تاکہ بابا جان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھےسے الیکشن لڑنے سے روکا جاسکے۔
آج ہی کے دن بابا جان کی سزا کی نویں برسی کے موقع پر ایک مشترکہ بیان میں ، عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماوں نے متنبہ کیا کہ اگر انہیں رہا نہ کیا گیا تو پارٹی قومی اور بین الاقوامی سطح پر احتجاجی مہم شروع کرے گی۔
“اے ڈبلیو پی کی قیادت نے کہا کہ بابا جان نے کوئی جرم نہیں کیا ہے انہیں گلگت بلتستان کے مزدور طبقے اور غریبوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی وجہ سے سزا دی جا رہی ہے۔ بابا جان اور ان کے دیگر تمام سیاسی قیدیوں کے خلاف الزامات میں کوئی وزن نہیں ہے ۔
حقیقت میں ، بابا جان کو جی بی اور بڑے پیمانے پر پاکستان میں نوجوانوں اور سیاسی طور پر شعور رکھنے والوں میں اپنی مقبولیت کی سزا دی جارہی ہے۔ جس کا ثبوت 2015 کو جیل سے ان کی انتخابی مہم ایک عوامی طاقت کی فتح کا نشان بتھا جسے ، ہنزہ کے روایتی اشرافیہ اور پاکستانی ریاست کے ساز شو ں اور جابرانہ وسائل کے ذریعے سے انہیں انتخابات میں براہ راست جیتنے سے روکنا تھا۔
یہاں یہ امر قابل مذمت ہے کہ جی بی کی سپریم اپیلٹ کورٹ نے 3 سال سے ان کی نظرثانی کی درخواست کی سماعت کے لئے ابھی تک ایک فل بینچ تشکیل نہیں دیا ہے۔
ہم چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ گلگت بلتستان میں اس ناانصافی کا نوٹس لے اور ان کی رہائی کا حکم دے۔
ہم 11 اگست 2011 کو علی آباد میں مظاہرین کے قتل کی عدالتی تحقیقات کے نتائج کو منظرعام پر لانے اور قتل کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔
" علاوہ ازیں ، ہم گلگت بلتستان میں سیاسی کارکنوں پر انسداد دہشت گردی ایکٹ سمیت دیگر کالےقوانین کے اطلاق اور اس کے تحت دئے گئے سزاؤں کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور گلگت بلتستان کے لوگوں کو ان کی امنگوں اور اقوام متحدہ کےقراردادوں کے مطابق کے مطابق بنیادی سیاسی اور آئینی حقوق اور انہیں سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا حق دینے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں ۔
عوامی ورکرز پارٹی کی قیادت نے مزید کہا کہ ان کی پارٹی گلگت بلتستان میں ایک صدارتی آرڈر کے ذریعے اور سامراجی طاقتوں کے کہنے پر خطے کے عوام کے دیرینہ مطالبہ یعنی داخلی خودمختاری ، کے برخلاف کسی بھی نظام حکمرانی کو مسترد کرتی ہے۔
انہوں نے کہا ، "ہم پی ٹی آئی حکومت کے ذریعہ نوآبادیاتی اور افسر شاہی کے شکنجوں کو مزید مستحکم کرنے اور علاقے کے عوام کے وسائل پر قبضہ کرنے کے بہانے گلگت بلتستان کے لئے مجوزہ عبوری صوبائی حیثیت پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں"۔
"ہم گلگت بلتستان میں ح جدید نوآبادیاتی نظام حکومت کو ختم کرنے اور علاقے کے عوام کے ذریعہ منتخب ہونے والی حقیقی خود مختار مقامی اسمبلی میں قانون سازی اور انتظامی اختیارات کی منتقلی اور جی بی کونسل اور وزارت امور کشمیر کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
"ہم ایگزیکٹو آرڈرز کے بجائے جی بی کورٹ میں ججوں کو میرٹ پر تعینات کرنے کے لئے آزاد عدلیہ کے ساتھ ساتھ ایک آزاد عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔"
اے ڈبلیو پی کی قیادت نے کہا کہ پارٹی تمام سیاسی جماعتوں ، ترقی پسند قوتوں ، انسانی حقوق کے محافظوں اور بین الاقوامی اداروں سے اپیل کی کہ وہ اس موقع پر آواز اٹھائیں اور اسیروں کی رہائی کا مطالبہ کریں