برطانوی اخبار ’’ دی ٹائمز‘‘کے مطابق بورس جانسن انگلینڈ کرکٹ بورڈ کی جانب سے پاکستان کا دورہ منسوخ کرنے کے فیصلے پر بھی ناراض ہیں، وزیراعظم اور سینئر وزراء کا ماننا ہے فیصلے کے باعث انگلینڈ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے ہیں ۔
برطانوی میڈیا کے مطابق پاکستان کا دورہ منسوخ کرنے سے قبل انگلینڈ کرکٹ بورڈ ، وزیراعظم آفس، دفترخارجہ ، محکمہ ثقافت ، میڈیا اور کھیل کے حکام کے درمیان مشاورت ہوئی تھی جس میں گورننگ باڈی کی جانب سے منصوبہ بندی سے آگے بڑھنے پر زور دیا گیا ۔
ان درخواستوں کو نظر انداز کرنے اور کھلاڑیوں کی ذہنی اور جسمانی صحت کی بنیاد پر دورہ منسوخ کرنے کے بعد کے فیصلے نے وزراءکو مشتعل کر دیاہے ۔
برطانوی اخبار کے مطابق ان کا ماننا ہے کہ اس فیصلے نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر بنانے کیلئے برطانیہ کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے جب وہ خاص طور پر اہم ہے۔ دی ٹائمز کے مطابق بورس جانسن ای سی بی کے اگلے ماہ ہونے والے دورہ پاکستان کی منسوخی کے فیصلے پر ’برہم‘ ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خارجہ اور دولت مشترکہ کے دفتر میں سینیئر وزرا کا ماننا ہے کہ اس فیصلے سے برطانوی اور پاکستانی حکومتوں کے تعلقات پر منفی اثر پڑا ہے۔
دی ٹائمز نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ ای سی بی دورہ پاکستان کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا چاہتا تھا لیکن ٹیم انگلینڈ پلیئر پارٹنرشپ (ٹی ای پی پی) کے مداخلت نے اسے روک دیا۔ ٹی ای پی پی کھلاڑیوں کی یونین کا ایک یونٹ ہے جو انگلینڈ کے سینٹرل کنٹرکٹ والے کھلاڑیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چونکہ ٹی ای پی پی صرف سینٹرل کنٹرکٹ والے کھلاڑیوں کی نمائندگی کرتا ہے اور ای سی بی کاؤنٹی کرکٹرز کی ٹیم کے ساتھ دورہ پاکستان پر سوچ سکتی تھی۔ ’لیکن اس آپشن کو نہیں دیکھا گیا تھا۔‘
برطانوی میڈیا کے مطابق طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان نے برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان سے نکالنے کیلئے بھر پور مدد فراہم کی جبکہ افغان جنگ میں ان کا ساتھ دینے والے افغانیوں کو بھی وہاں سے نکالا ۔
دوسری طرف بورس جانسن نے موسم سرما کی ایشز سیریز کو بچانے کیلئے ذاتی مداخلت کی ہے جو کہ قرنطینہ کی سخت شرائط اور کھلاڑیوں کے اہل خانہ کیلئے کیئے جانے والے انتظامات کے بارے میں خدشات کے باعث منسوخ ہونے کا خطرہ ہے ۔
بورس جانسن کی آسٹریلین وزیراعظم سکاٹ موریسن کے ساتھ واشنگٹن میں ملاقات ہوئی جس دوران انہوں نے قوائد میں نرمی کیلئے قائل کرنے کی کوشش کی ۔ متعدد انگلش کھلاڑیوں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ ٹیسٹ ٹور میں حصہ لینے کیلئے تیار نہیں جو کہ نومبر سے جنوری تک چلے گا ، اگر انہیں اور ان کے اہل خانہ کو حکومت کے منتخب کردہ ہوٹلز میں دو ہفتوں کا سخت قرنطینہ کرنا پڑا جیسا کہ آسٹریلیا میں نئے آنے والوں کیلئے ضروری ہوتا ہے ۔