غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق نیوزی لینڈ نے راولپنڈی میں شیڈول پہلے ایک روزہ میچ سے چند لمحے قبل اپنی حکومت کی جانب سے 'سیکیورٹی الرٹ' کا جواز پیش کرکے پاکستان کا دورہ منسوخ کردیا تھا۔ اس کے چند دن بعد انگلینڈ نے بھی خطے میں صورتحال اور کھلاڑیوں کی تھکن کا بہانہ بنا کر دورہ پاکستان سے انکار کردیا تھا۔
انگلینڈ کے انٹرنیشل کھلاڑیوں کی نمائندگی کرنے والی یونین ٹیم انگلینڈ پلیئر پارٹنرشپ (ٹی ای پی پی) نے اپنے بیان میں کہا کہ دورہ منسوخ کرنے کے حوالے سے کرکٹرز سے کوئی رائے نہیں لی گئی تھی۔ ٹی ای پی پی کے چیئرمین رچرڈ بیوِن نے 'کرک انفو' کو بتایا کہ کسی بھی مرحلے پر یونین نے ای سی بی سے یہ نہیں کہا کہ کھلاڑی دورہ نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی مرحلے پر انگلش کرکٹ بورڈ نے ٹی ای پی پی یا مرد و خواتین ٹیموں سے نہیں پوچھا کہ کیا دورہ جاری رکھا جائے یا کیا کھلاڑی پاکستان کا دورہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ کہنا سو فیصد غلط ہے کہ ٹی ای پی پی پی نے مداخلت کرکے کہا کہ کھلاڑی دورہ نہیں کریں گے'۔
واضح رہے کہ 2009 میں سری لنکن ٹیم کی بس پر لاہور میں ہونے والے حملے کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہوگئے تھے۔ تاہم تقریباً ایک دہائی بعد پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ دوبارہ بحال ہوئی اور سری لنکا، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش سمیت کئی ٹیمیں کامیابی کے ساتھ پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں۔
انگلینڈ کرکٹ بورڈ کی جانب سے کسی ٹھوس وجہ کے بغیر دورہ منسوخ کرنے کے فیصلے کو سابق انگلش کرکٹرز سمیت کرکٹ حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل آتھرٹن کا کہنا ہے کہ یہ بات حیران کن ہے کہ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ (ای سی بی) نے کھلاڑیوں کی فلاح کا حوالہ دیتے ہوئے دورہ پاکستان منسوخ کردیا لیکن کھلاڑیوں کو تین ماہ تک جاری رہنے والے انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں کھیلنے کی اجازت دے دی۔ سخت ردعمل میں مائیکل آتھرٹن نے کہا کہ ای سی بی کا یہ فیصلہ، بھارت کے مانچسٹر ٹیسٹ سے دستبرداری کے فیصلے سے بھی بدتر ہے۔
برطانوی اخبار 'دی ٹائمز' میں لکھے گئے اپنے کالم میں مائیکل آتھرٹن نے اپنے کالم میں واضح کیا کہ منتظمین اور کھلاڑی دونوں پاکستان سے بہانہ بنانے میں غلط تھے حالانکہ انہیں پچھلے سال ان کی عظمت کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا جب پاکستان نے وبا کے دوران برطانیہ کا دورہ کیا تھا۔
انہوں نے لکھا کہ انگلش کرکٹ، گورننگ باڈی اور کھلاڑیوں کو رواں ہفتے اپنی غلطی درست کرنی چاہیے تھی، انہیں قرض چکانے، عزت کو برقرار رکھنے اور ایک ایسی کرکٹ قوم کے ساتھ کھڑا ہونے کا موقع ملا تھا جو ایسے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے جو دوسرے سوچ بھی نہیں سکتے، لیکن اس کے بجائے انہوں نے بھونڈا بیان جاری کر کے غلط کام کیا۔