سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں انہوں نے چند حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ قبائلی علاقوں میں سب سے پہلے عرب اور ازبک جمع ہوئے تھے۔ اس وقت ان کے خلاف لڑنے والے ڈی جی آئی ایس جنرل احسان الحق پختون، کور کمانڈر علی محمد جان اورکزئی پختون اور جنوبی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ اعظم خان (جو اس وقت عمران خان کے پرنسل سیکرٹری ہیں) پختون تھے۔
سلیم صافی نے اپنی ٹویٹس میں لکھا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے عمران خان وغیرہ کی طرف کبھی پٹاخہ بھی نہیں پھینکا لیکن پختون فضل الرحمان، پختون آفتاب شیر پآ، پختون اسفندیار ولی اور پختون امیر مقام پر خود کش حملے کئے۔ سب سے زیادہ رہنما اور کارکن پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مارے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان دنیا کی نظروں میں سب پختونوں کو طالبان ثابت کرکے بدنام کر رہے ہیں۔ پختون وزرا تو کبھی اپنی قوم پر غیرت دکھا کر استعفے کی جرات نہیں کر سکیں گے لیکن کم ازکم وزیرستان میں پہلا آپریشن کرنے والے اعظم خان (خان کے پرنسپل سیکرٹری) توغیرت دکھا کر مستعفی ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ افغان اور پاکستانی طالبان کی قربت کی بنیاد پختون ولی نہیں بلکہ اسلامی جہادی نظریہ ہے۔ کیا اسامہ بن لادن پختون تھے جن کی خاطر طالبان نے اپنی حکومت قربان کردی۔ کیا خالد شیخ پختون کےگھر سےنکلےتھے یا پنڈی میں ایک پنجابی کے گھر سے؟ کیا رمزی بن الشیبہ کراچی میں پختون کے گھر سے نکلے تھے؟
اپنی ایک اور ٹویٹ میں سلیم صافی کا کہنا تھا کہ طالبان کے سب سے بڑے سپورٹر جنرل حمید گل اور کرنل امام کیا پختون تھے؟ جبکہ سب سے بڑی مخالف اے این پی تھی۔ کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے پہلے پختون ڈاکٹر نجیب کو مارا تھا۔ ان زمینی حقائق کو جھٹلا کر عمران خان کس بنیاد پر طالبان کی جدوجہد کو پختون ولی سے جوڑ رہے ہیں۔