ٹرمپ عمران ملاقات سے لے کر، جنرل اسمبلی سے 2019 والے خطاب تک اور پھر شاہ سلمان، طیب اردوان اور مہاتیر محمد سے ملاقات تک ہر بار یہ سماں باندھا گیا کہ بس ابھی انسانی تاریخ کا وہ خیرہ کن لمحہ رونما ہونے کو ہے جب پاکستان دنیا کی سپر پاور کہلائے گا اور دنیا ہماری اسیر ہو جائے گی۔ لیکن جیسے کہ ڈبہ فلموں کی پروموشن پر جتنی مرضی سرمایہ کاری کر لی جائے تھیٹر اور پروڈیوسر کی جیب دونوں خالی ہی رہتے ہیں، ایسے ہی تمام تر تگ و دو کے باوجود عظمت عمرانیہ کی خواہش اور ملک کے لئے اس کے ثمرات کی باتیں جذبات کے منجدھار سے نکلتے ہی دم توڑ دیتی ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت فلاپ فلم کی پروموشن تھیٹر سے اترنے کے بعد بھی کرتی ہے۔
یہی کچھ وزیر اعظم کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے حالیہ آن لائن خطاب کے ساتھ ہوا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے خطاب سے پہلے ماحول کچھ یوں بنایا جا رہا تھا جیسے چشم فلک دیکھنے جا رہی ہے کہ ایک مرد حر تن تنہا عالمی سفارتی سورماؤں کو دھوبی پٹکے مار مار وہ پچھاڑے گا کہ اللہ کی پناہ۔ کیا افغانستان کا مسئلہ تو کیا کشمیر کاذ۔ کیا موسمیاتی تبدیلی پر داؤ پیچ ہوں گے تو کیا اسلامو فوبیا کا میچ جیتا جائے گا۔ لیکن ہوا یہ کہ خان صاحب جب افغانستان پر بولے تو پختونوں کو شدت پسند قرار دے دیا۔ فرمایا کہ طالبان کا ساتھ پاکستان کے جہادیوں نے اس لئے دیا کیونکہ وہ پختون تھے۔ اس پر سینیئر صحافی اور افغان امور کے ماہر سلیم صافی لکھتے ہیں کہ جنرل اسمبلی سے خطاب میں عمران خان نے ایک بار پھر پختونوں کی بے عزتی کی اور اس خرافات کی تکرار کی کہ پاکستانی جہادیوں نے جہادی سوچ کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس بنیاد پر طالبان کا ساتھ دیا کہ دونوں پختون تھے۔ طالبان کے حق میں پہلا فتویٰ لال مسجد سے آیا تھا۔ قبائلی علاقوں میں سب سے پہلے عرب اور ازبک جمع ہوئے تھے۔ اس وقت ان کے خلاف لڑنے والے ڈی جی آئی ایس جنرل احسان الحق پختون، کور کمانڈر علی محمد جان اورکزئی پختون اور جنوبی وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ اعظم خان (جو اس وقت عمران خان کے پرنسل سیکرٹری ہیں) پختون تھے۔
ٹی ٹی پی نے عمران خان وغیرہ کی طرف کبھی پٹاخہ بھی نہیں پھینکا لیکن پختون فضل الرحمان، پختون آفتاب شیرپاؤ، پختون اسفندیار ولی اور پختون امیر مقام پر خودکش حملے کیے۔ سب سے زیادہ رہنما اور کارکن پختون قوم پرست جماعت اے این پی کے مارے۔ عمران خان دنیا کی نظروں میں سب پختونوں کو طالبان ثابت کر کے بدنام کر رہے ہیں۔ پختون وزرا تو کبھی اپنی قوم پر غیرت دکھا کر استعفے کی جرات نہیں کر سکیں گے لیکن کم از کم وزیرستان میں پہلا آپریشن کرنے والے اعظم خان (خان کے پرنسپل سیکرٹری) تو غیرت دکھا کر مستعفی ہو جائیں۔
سلیم صافی نے واضح طور پر دلائل سے سمجھایا ہے کہ کیسے عمران خان کا یہ دعویٰ کہ پختون شناخت کی وجہ سے طالبان کو سپورٹ حاصل ہوئی مکمل طور پر غلط ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان نے یو این جنرل اسمبلی جو کہ عالمی فورم ہے وہاں پر ریگن اور طالبان کی ملاقات اور پھر امریکی صدر ریگن کی جانب سے طالبان کو امریکہ کے بانیان کے ساتھ ملانے کے بیان کا دعویٰ بھی داغ ڈالا۔ یہ حرکت فیس بک پر بنا دیکھے پڑھے جانے اور سمجھے شئیر بٹن دبانے والے کسی عام صارف کی جانب سے کی جاتی تو قابل فہم تھا لیکن تاریخی طور پر ایک جعلی قصہ جس دیدہ دلیری سے ہمارے وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں سنا دیا، یہ واقعہ بھی شاید چشم فلک نے پہلی بار ہی دیکھا ہوگا۔ جس تصویر کا جناب عمران خان نے دعویٰ کیا وہ تو 1983 میں لی گئی تھی جب طالبان کا وجود بھی نہ تھا اور یہ افغان مجاہدین تھے۔ تاہم، وزیر اعظم نے ریگن کے جس مبینہ بیان کو اس تصویر کے ساتھ چپکا دیا وہ نکاراگوا کے باغیوں کے لئے تھا جو کہ کمیونسٹ حکومت کے خلاف امریکی شہہ پر لڑ رہے تھے۔ ذرا وہ کلپ بھی دیکھ لیجئے:
مزید یہ کہ کشمیر کو لے کر وہی سکرپٹ، الفاظ کی بے مغز تکرار پر مبنی تقریر تھی۔
یہ صورتحال کسی بھی ذی شعور کے لئے بہر حال افسوسناک ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کو جب پوری دنیا میں اپنے لئے چار آواز میں آواز ملانے والے ڈھونڈنے تھے تو وہ اسلام آباد کے کسی عالیشان محل کے پرسکوں ڈرائنگ روم میں آرام دہ کرسی پر سجے کیمرے پر تقریر فرما رہے تھے۔ اس دوران نریندر مودی امریکی صدر بائیڈن کے علاوہ درجن بھر غیر ملکی سربراہان سے مل رہے تھے۔ یہ کس قسم کی سفارتکاری ہے کہ آپ رُس کے گھر بیٹھ گئے اور دنیا کو اپنا مؤقف سمجھانے کی کوشش تک نہیں کر رہے؟ لیکن پروموٹرز ہیں کہ ڈبہ فلم جس کا بنیادی پلاٹ یعنی اپنے دفتر سے بیٹھ کر تقریر کرنا، یہی اس کے فلاپ ہونے کی دلیل ہے، اس کی پروموشن پر تاحال گوڈے گٹے جوڑ کر لگے ہوئے ہیں۔ اللہ انہیں کامیابی عطا فرمائے۔ آمین۔