ایک بادشاہ کے یہاں ایک سکہ چلتا تھا جس پر اس کے پردادا کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ اس سکہ نے بادشاہ کو با اختیار بنایا ہوا تھا۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق ریاست کے نظام کو چلاتا تھا۔ لوگ اپنے روزمرہ کے مسائل کا حل اس بادشاہ کے فیصلوں کو سمجھتے تھے کیونکہ اکثر کی محنت کی قدریں بادشاہ کے خزانے میں سکوں کی شکل میں جمع تھیں۔ عوام اپنی ضروریات پوری کرنے بادشاہ کے یہاں جاتے اور ریاست سے باہر کچھ لین دین کے لئے بھی وہ سکہ استعمال کرتے۔
دوسری سلطنت کے لوگ اس سکہ کو جمع کر کے واپس اس ریاست میں لاتے اور اس کے بدلے چیزیں لے کر جاتے۔ سکہ بنانے کی مشین اس بادشاہ کے یہاں ہوتی اور اس نے کئی لاکھ سکے اپنے خزانہ میں مشکل وقت کے لئے رکھے ہوئے تھے۔ پھر بادشاہ کے بچوں کو عجیب خواہشات نے گھیر لیا۔ اب وہ سکے اٹھا کر دوسری ریاستوں میں جا کر اپنی خواہشات پوری کرتے، رشتہ داریاں بنائیں اور ادھر پڑھنے کے ساتھ اپنے لیے گھر بنانے شروع کر دیے۔
شروع کے کچھ عرصے میں راستہ پہ بیٹھے سپاہی تنگ کرتے رہے مگر پھر ان کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ اب رستے کی چور ڈکیتی کا خطرہ بھی ختم ہوا اور اس کے بعد آہستہ آہستہ ریاست کی ضرورت کی چیزیں جیسے گندم وغیرہ باہر جانے لگی۔ لیکن پہلے اس کے بدلے عوام اپنے لیے کچھ مناسبت کے مطابق خور و نوش لاتے۔ مگر اب باہر جا کر چیزیں لینے کی کوشش کرتے مگر بدلے میں کچھ خاص نہیں ملتا۔ کیونکہ بادشاہ نے اپنے بچوں کی خواہشات پوری کرنے کے لیے عوام سے چھپ کر زیادہ سکے بنانے شروع کر دیے تھے۔
اب عوام ساتھ والی ریاست میں جاتے مگر ان کو ان کے پیسے کے بدلے کچھ نہیں ملتا۔ بادشاہ نے سکہ سے دادا کی تصویر کی جگہ اپنی لگا لی مگر سکے کی قدر میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکا۔ آخرکار لوگ اپنی چیزیں ادھر بیچنے سے انکاری ہو گئے۔ اب وہ کام کے لیے بھی دوسری ریاست جاتے اور ادھر کے سکہ کو اپنے ساتھ لاتے۔ آہستہ آہستہ اس بادشاہ کا سکہ ختم ہونے لگا اور ساتھ میں اس کی طاقت بھی۔ کیونکہ بڑی مارکیٹ میں لوگ ساتھ والی ریاست کے سکہ سے کام چلا رہے تھے۔
اب اگلا بادشاہ بھی وہ شخص بننے والا تھا جس کے پاس ساتھ والی ریاست کے بادشاہ کی پشت پناہی ہوتی۔ کیونکہ سکہ اسی کا چل رہا تھا، اور وہ اپنے سکے کے سہارے کبھی بھی بادشاہ کے خلاف بغاوت کے لئے لوگوں کو اکساتا اور باآسانی تختہ الٹنے میں کامیاب ہو سکتا۔ اس نے اپنے سکہ کی قیمت کا تعین بھی اپنی مناسبت سے کر لیا تھا۔ اب اس ریاست کا سکہ ساتھ والی ریاست کے سکہ سے دو سو گنا مہنگا ہو گیا تھا۔ یہ کوئی ہزار سال پرانی ریاست کی کہانی نہیں، 76 سال پہلے بننے والی ریاست کے سکہ کی کہانی ہے۔
یہ ہمارے ملک پاکستان کی کہانی ہے۔ اب مزدور کی پورے مہینے کی مزدوری سے دو من گندم نہیں خریدی جا سکتی۔ ہر شہری اس ملک سے باہر جا کر کام کرنا چاہتا ہے اور اس کے بدلے ڈالر کمانا چاہتا ہے۔ جو نوجوان ادھر بیٹھ کر آن لائن کام کرتے ہیں ان کی کوشش بھی ڈالر میں رقم کمانا ہوتی ہے۔ وہ اپنی سروسز اس ملک کے لوگوں کے لئے نہیں بلکہ باہر کے ممالک کے لوگوں کو دینا چاہتے ہیں۔ کیونکہ باہر سے ان کو جو پیسے ملتے ہیں ان کی قدریں اس ملک کی کرنسی سے کئی سو گنا زیادہ ہوتی ہیں۔
باہر کے ممالک کے لوگوں سستے میں ہماری سروسز لے لیتے ہیں اور اکثر بڑے کاروباری لوگ بھی اپنا پیسہ انٹرنیشنل منڈی یا پھر انٹرنیشنل بینکس میں رکھنا پسند کرتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان کی کرنسی کی کوئی قیمت نہیں رہی۔ اور ریاست کے ٹیکسز کے رد و بدل بھی اب روز کی کہانی بن گئی ہے۔ ہمارے حکمران اب تک چوبیس دفعہ بین الاقوامی ادارے آئی ایم ایف سے قرضہ لے چکے ہیں۔ اور ہماری پوری جی ڈی پی اس قرضہ کے برابر پہنچ چکی ہے۔
لوگ جتنا کماتے ہیں اتنے میں ان کی ضروریات زندگی کی چیزیں پوری نہیں ہوتیں اور ہماری حکومت نے کرنسی نوٹ کی شکل تبدیل کرنے کے ساتھ اسے زیادہ چھاپنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ مگر اس سے اس ملک کے قرضے تو نہیں دیے جا سکتے۔ ہمیں ان چوروں کو پکڑنا ہو گا جو ان غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی اور اس ریاست کے معدنی وسائل لوٹ کر باہر لے گئے۔ مگر ان کو پکڑے گا کون؟ وہ حکومتی ملازم جو بادشاہ کے دیے پیسوں پر پلتا ہے؟
ریاستیں زر سے چلتی ہیں۔ وہ چاہے اپنا ہو یا کسی اور کا۔ اور اس کے فیصلے بھی اس کے مطابق ہوتے ہیں۔ اب اگر کرنسی اپنی ہو اور حکم کسی اور کا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری کرنسی عوام کو خوش کرنے کے لئے استعمال کی جا رہی ہے۔ باقی لین دین تو سب ڈالر میں ہو رہا ہے۔ قرضے لیے بھی ڈالر میں جاتے ہیں اور واپس بھی ڈالر میں کرنے ہوتے ہیں۔ تو بہتر یہ ہو گا کہ ہم کرنسی بھی ان کی استعمال کریں، تاکہ عام غریب لوگوں پر مزید قرضوں کی شکل میں مشکلات نہ بڑھیں، عوام کی زندگیوں میں بہتری آئے اور وہ بھی بالواسطہ ہی سہی مگر ڈالر کی حکمرانی میں تو آ جائیں۔