ویسے بھارت اور پاکستان کا کلچر زیادہ مختلف نہیں لیکن اگر بات کی جائے گالی کلچر کی تو یہاں بھی آپ کو زیادہ فرق محسوس نہیں ہوگا۔ دونوں ملکوں کی حکمران جماعتوں کے جنونی کارکنان بھی کسی صورت ایک دوسرے سے کم نہیں۔ بھارت میں مودی سرکار کے حامی اور پاکستان میں نیازی سرکار کے حامی اپنے سیاسی مخالفین اور ناقدین پر غداری کے الزام لگاتے ہیں اور ناقدین پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ اگر دونوں ملکوں کی سرکار کو گالیوں والی سرکار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
اگر دونوں ملکوں کی گالیوں والی سرکار کا موازنہ کیا جائے یا دونوں حکمران جماعتوں کے کارکنان کی جانب سے صحافیوں اور اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف الزام تراشی اور بدتمیزی کو کسی ترازو میں رکھا جائے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ نیازی سرکار کا پلڑا بھاری ہوگا۔ اگر آپ ٹویٹر پر پاکستان کے ٹاپ ٹرینڈز پر نظر ڈالیں تو آپ بھی مجھ سے اتفاق کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے اور اگر آپ نے مجھ سے اختلاف کیا تو میں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا کہ آپ بھی گالیوں والی سرکار کا حصہ یا اس کے حامی ہیں۔
کنٹینر پر کھڑے ہو کر عمران خان اپنی ہر تقریر کے آغاز میں سونامی اور اختتام پر تبدیلی کا ذکر کرتے تھے۔ ایک طرف ملک میں مہنگائی کا سونامی آ گیا ہے جس نے غریبوں کے پہلے سے اجڑے ہوئے چمن کو نیست و نابود کر دیا ہے تو دوسری طرف ٹویٹر پر بدتمیزی کا سونامی آ گیا ہے جس نے تحریک انصاف کے ناقدین، سیاسی مخالفین اور صحافیوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، معروف سماجی کارکن ماروی سرمد سمیت پاکستان کے نامور صحافیوں سلیم صافی، عمر چیمہ، اعزاز سید، ارشد وحید چوہدری، فخر درانی اور دیگر کے خلاف شرمناک اور غلیظ ٹرینڈ بنا کر تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ جو بھی عمران خان یا تحریک انصاف پر تنقید کرے گا اس کی نہ صرف کردار کشی کی جائے گی بلکہ اس کو غلیظ ترین گالیاں بھی دی جائیں گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم سیل سینیئر صحافی شاہ زیب جیلانی کے خلاف مقدمہ قائم کر سکتا ہے تو سیاسی رہنماؤں، معروف شخصیات اور نامور صحافیوں کے خلاف غلیظ ٹرینڈ بنانے والے گھٹیا ترین لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کی راہ میں کیا رکاوٹ ہے؟ یا پھر حکومت اور ایف آئی اے واضح کر دے کہ سائبر کرائم قوانین کا اطلاق صرف اپوزیشن جماعتوں کے کارکنان، صحافیوں اور بلاگرز پر ہوتا ہے۔