اس وقت طبّی ماہرین اور حکومتِ وقت کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ سب سے پہلے کراچی کے کچھ سینیئر ڈاکٹروں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے پر سخت تنقید کی اور انڈس ہسپتال کے ڈاکٹر عبدالباری نے یہاں تک کہہ دیا کہ کراچی کے تمام ہسپتال مریضوں سے بھر چکے ہیں۔ ڈاکٹروں نے مزید کہا کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا کی پالیسی انتہائی افسوسناک ہے۔
ڈاکٹرز کے بیانات پر شہباز گِل کے تند و تیز بیانات اور ان کے شافی جوابات
جیسا کہ موجودہ حکومت اور اس کے نادان دوستوں کا وطیرہ ہے، ڈاکٹروں کے اس بیان پر بدھ اور جمعرات پر خوب لے دے ہوتی رہی۔ پنجاب حکومت کے سابق ترجمان شہباز گِل جو اب وفاق میں عمران خان کی ترجمانی کا انتہائی مشکل فریضہ سرانجام دے رہے ہیں، سوشل میڈیا پر ڈاکٹرز کو خوب کڑوی کسیلی سناتے رہے۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ ڈاکٹر لاک ڈاؤن کے مسئلے پر سیاست کر رہے ہیں۔ ان کا اشارہ سندھ حکومت اور وفاق کے درمیان کشیدگی کی جانب تھا اور بحیثیت ترجمان انہوں نے یہ موقع بھی اپنے ہاتھ سے نہ گنوایا اور ڈاکٹروں پر الزام تراشی کر دی۔
یہاں تک کہ انہوں نے ان ڈاکٹروں پر کرپشن کا الزام بھی لگا دیا جو کہ پاکستان تحریکِ انصاف کا تکیہ کلام ہے۔ لیکن یہ بیانیہ کامیاب نہ ہوا اور اگلے ہی روز یعنی جمعرات کی شام لاہور کے ڈاکٹروں نے بھی کراچی میں کیے گئے سوالات اٹھا دیے اور انتہائی واضح انداز میں حکومت کی پالیسی سے نہ صرف اختلاف کیا بلکہ سرزنش بھی کی۔ اور تو اور عمران خان صاحب کے اپنے بنائے ہوئے شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بھی انہی باتوں کی تائید کی جو ملک بھر کے ڈاکٹر حضرات کر رہے تھے۔
ڈاکٹرز کی جانب سے اٹھائے گئے پانچ اہم ترین نکات
پاکستانی ڈاکٹرز کی رائے کے مطابق ملک میں مساجد کھلی رکھنے اور لاک ڈاؤن نرم کرنے سے مئی کے دوران ہی ہزاروں کیسز کا اضافہ ہونے کا خدشہ ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ 70 فیصد مریضوں میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ اس لئے ٹیسٹوں کی کم تعداد اور علامات نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی عوام ایک بہت بڑے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔
دوسرا اہم امر یہ ہے کہ اس وقت تک پاکستان میں 250 کے قریب ڈاکٹر اور طبی عملہ کرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ اور اگر یہ تعداد بڑھتی رہی تو ہسپتالوں میں علاج کرنے والوں کی شدید کمی واقع ہو جائے گی۔ یہاں پر یہ ذکر کرنا ضروری ہوگا کہ سپین میں 14 فیصد سے زائد مریضوں کا تعلق طبّی شعبے سے ہے۔
تیسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ کرونا وائرس کے دس فیصد سے زائد مریضوں کو سانس لینے میں دشواری کے باعث انتہائی نگہداشت میں رکھنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ اسی بات سے ہو جانا چاہیے کہ 11 کروڑ کی آبادی پر مشتمل صوبہ پنجاب میں اس وقت 1245 وینٹیلیٹرز دستیاب ہیں جن میں سے 77 کام ہی نہیں کرتے۔
چوتھی اہم بات ڈاکٹروں کے مطابق ملک میں جاری فرسودہ بحث سے متعلق تھی کہ لاک ڈاؤن کرنے سے معیشت پر برا اثر پڑتا ہے۔ اس وقت تمام ڈاکٹرز یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر لوگوں کی زندگیاں بچائی جائیں گی تو معیشت بھی بچے گی۔ اگر فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور دھڑا دھڑ بیمار ہوں گے اور طبی امداد نہ ملنے کے باعث دنیا سے چلے جائیں گے تو کاروبار پر منفی اثر پڑے گا۔
پانچواں اور اہم ترین نکتہ جس کی ڈاکٹروں نے تاکید کی ہے، وہ مساجد کو کھلا رکھنے سے متعلق ہے۔ انہوں نے حکومت کی پالیسی پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ مساجد کو کھلا رکھنے سے کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کا شدید خطرہ ہے اور 20 نکاتی معاہدے پر عملدرآمد تقریباً ناممکن ہے۔ ڈاکٹروں نے علمائے دین کو بھی ایک خط لکھا ہے جس میں اپیل کی گئی ہے کہ وہ طبّی مشوروں پر دھیان دیں اور مساجد سے متعلقہ موجودہ پالیسی پر نظرِ ثانی کریں۔
حکومت کے ترجمان ہی اس کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں
جمعے کے روز پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے ایک اعلامیہ بھی جاری کیا جس میں انہوں نے شہباز گِل کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی شدید مذمّت کی اور انہوں نے شہباز گل کو کہا کہ وہ اپنا بیان واپس لیں جس میں انہوں نے ڈاکٹروں کی ماہرانہ صلاحیتوں پر سوال اٹھایا اور ان پر سیاست کھیلنے کا الزام بھی لگایا۔
ایک ایسے وقت پر جب حکومتِ پاکستان کو ہر ڈاکٹر، نرس اور اہلکار کی شدید ضرورت ہے، اسی کے ترجمان نہ صرف بدگمانیاں پیدا کر رہے ہیں بلکہ اس شعبے میں کام کرنے والے محنتی لوگوں کی عزت بھی پامال کر رہے ہیں۔
عمران خان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی اور پیاروں سے کیا توقع کی جائے۔ یہ کہنا کافی نہیں اور نہ ہو تسلی بخش جواب ہے کیونکہ اس وقت عمران خان اپنے ہر اٹھائے ہوئے قدم کے لئے نہ صرف ذمہ دار ہیں بلکہ جوابدہ بھی ہیں۔ آج ان کے خوشامدی ٹی وی اینکرز اور درباری ملّا جو مرضی کہتے پھریں، تاریخ یہ سب کچھ رقم کر رہی ہے۔
ڈاکٹر ظفر مرزا کا کردار کیا ہے؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشیرِ صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا اس سارے ڈرامے میں کردار کیا ہے؟ اگر وہ اس شعبے کے انچارج ہیں تو پھر ان کو یا ان کی ٹیم کو حکومت کی طرف سے بیانات دینے چاہئیں اور خود ساختہ یا امپورٹڈ ترجمانوں کی فوج ظفر موج یہ کام کیوں کر رہی ہے؟
اس امر سے یہ اندازہ بھی ہو جاتا ہے کہ حکومت کے اندر بھی کسی قسم کی یکسوئی نہیں اور ہر کسی کو بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کی مکمل آزادی ہے۔
عمران خان صاحب ذمہ داری کو سمجھیں، جواریوں کی طرح حکومت نہ چلائیں
عالمی اور ملکی سطح پر کرونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے ایک واضح قومی پالیسی کی ضرورت ہے جو ابھی تک دکھائی نہیں دے رہی اور موجودہ حکومت کے رویے کے بعد یہ امید رکھنا بھی فضول ہے۔ برائے نام لاک ڈاؤن کرنے کی پالیسی کوئی پالیسی نہیں بلکہ سیاسی شعبدہ بازی ہے اور عمران خان صاحب کی سیاسی حکمتِ عملی اس وقت جواری کی مانند دکھائی دے رہی ہے۔
بقول وزیر اعظم کے وہ اپنے ایمان کی بنیاد پر بڑے بڑے رسک لے رہے ہیں اور ان کا یہ خیال ہے کہ یہ مشکل وقت گزرنے کے بعد وہ حالات پر قابو پا لیں گے۔
یہاں پر مسئلہ گھمبیر ہے کیونکہ اس وقت عمران خان صاحب کرکٹ کے سٹیڈیم میں ہوں یا اس سے باہر ہوں، کروڑوں زندگیاں داؤ پر لگی ہیں۔ ایک مشکل صورتحال میں کسی بھی لیڈر کو اپنے سے پہلے عوام کا ساچنا پڑتا ہے۔
عمران خان صاحب کو اندازہ نہیں کہ داؤ پر کیا لگا ہوا ہے
فرض کیجئے کہ اس بازی میں عمران خان صاحب ہار جاتے ہیں تو ملک کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کون کرے گا اور کیا عمران خان صاحب اپنی جوابدہی کے لئے تیار ہوں گے؟
راولپنڈی اور اسلام آباد کی غلام گردشوں میں ایک اور خطرناک صورتحال ابھر رہی ہے، جس میں حکومتِ وقت کا فیصلہ بہت جلد ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یاد رہے کہ اقتدار کا اصل سرچشمہ وہ ادارے ہیں جو خان صاحب اور ان کے رفقا کو حکومت میں لے کر آئے ہیں اور اگر معاملات بگڑے تو وہ اپنی بازی کھیلنے سے گریز نہیں کریں گے۔ ویسے بھی راولپنڈی کے ایوانوں میں آج بھی قومی حکومت کی تشکیل کے خواب دیکھے جاتے ہیں جن کی تعبیر عمران خان کی جیت کو مات میں بدل سکتی ہے۔