جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ بینچ نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کی سماعت کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سماعت میں استفسار کیا کہ ہماراسوال یہ ہے کہ ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم دیا بھی جاسکتا تھا یا نہیں،ہم کیس میں ایف بی آر رپورٹ کی قانونی حیثیت نہیں دیکھ رہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں ان سوالات کو کلئیر کر دیتا ہوں، جسٹس عمرعطا بندیال کیس میں نیا پنڈورا باکس کھولنا چاہتے ہیں، بار بار یاد دہانی کراچکا وقت کم ہے، بینچ کے ایک ممبر کو 4 دن میں ریٹائر ہو جانا ہے،بلاوجہ عدالت کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔
حکومتی وکیل عامر رحمٰن نے کہا کہ میں ان سوالات کے جوابات دے رہا ہوں جوعدالت نے مجھ سے کیے، جبکہ درخواست گزار بار بار کہہ رہے ہیں کہ میں عدالت کا وقت ضائع کر رہا ہوں۔
جسٹس مقبول باقرنے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ عدالت ایف بی آر رپورٹ نہیں دیکھے گی۔
حکومتی وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے آج کی سماعت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس منصورعلی شاہ نےحق دعویٰ نہ ہونے کا سوال اٹھایا تھا،وفاقی حکومت کیس میں باضابطہ فریق ہے، عدالت نےوفاقی حکومت کونوٹس جاری کرکے جواب مانگا تھا۔
وکیل وفاقی حکومت نے کہاکہ وفاقی حکومت نے ریفرنس کالعدم ہونے پر نظرثانی نہیں کی، عدالت نے ریفرنس قانونی نکات میں بےاحتیاطی برتنے پر کالعدم کیا تھا،عدالت نے کہا تھا سرینا عیسیٰ کو وضاحت کا موقع دیے بغیر ریفرنس دائر کیا گیا۔
وکیل عامر رحمٰن نے کہا کہ عدالت کیس ایف بی آر کو نہ بھجواتی تو وفاقی حکومت نظرثانی اپیل دائر کرتی، حکومت کیس ایف بی آر کو بھجوانے کا دفاع کرنے میں حق بجانب ہے،وفاق کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ عدالتی احکامات کا دفاع کرے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک سوال جسٹس منیب اختر صاحب کی طرف سے پوچھا گیا تھا کہ نظرثانی درخواست منظور ہوگئی تو بھی کیاایف بی آر رپورٹ پر کارروائی ہوسکتی ہے؟ اس پر کہنا یہ ہے کہ اگر کسی فیصلے پر عملدر آمد ہوجائے تو نظرثانی کے باوجود وہ فیصلہ واپس نہیں ہوسکتا۔
وکیل عامر رحمٰن نے دلائل میں کہا کہ جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے سوال پوچھا گیا تھا کہ کیا سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو دستیاب معلومات کا جائزہ لینے سے روک سکتی ہے؟ اس پر جواب میں کہنا ہے کہ معلومات کےحصول کے بعد سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایات جاری نہیں کرسکتی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرٹیکل 211 کے تحت جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے ریمارکس میں کہا کہ آپ اپنے پہلے دیے گئے دلائل کے خلاف دلائل دے رہے ہیں، سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے میں سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایات جاری کیں،لگتا ہے آپ اپنے ہی کیس کےخلاف دلائل دے کر درخواست گزار کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
جسٹس یحیٰ آفریدی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ میں کہا کہ آپ محتاط انداز میں دلائل دیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری دلیل یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے تو سپریم جوڈیشل کونسل کو ہدایات جاری ہی نہیں کیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے کہاکہ عدالتی فیصلے میں کسی غلطی کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی، فیصلے میں قانونی غلطی ہو تو بھی نظر ثانی نہیں ہوسکتی، سپریم کورٹ کاکوئی حکم ایف بی آر پر اثرانداز نہیں ہوا۔
جسٹس فائز عیسٰی نے کہاکہ جسٹس منظور ملک نے پنجابی میں نہیں روکا، اس بات کا گلہ ہے،پنجابی میں کہوں گا تو ونج تے میں آیا، اس پر جسٹس منظور ملک نے کہاکہ آپ نے غلط پنجابی بولی، یہ ویسے سرائیکی زبان ہے، جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ میرے استاد نے مجھے غلط پنجابی سکھائی ہے۔
جسٹس فائزعیسیٰ نے بینچ سےمکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ میری دعا ہے جو مجھ پربیتی وہ آپ میں سے کسی پر نابیتے،آج یہاں عدلیہ کی آزادی کے لیے کھڑا ہوں، انہوں نے کل سے پھر میرا میڈیا ٹرائل شروع کردیا ہے، ان سے کہنا چاہتا ہوں عزت دیں، میں آج بھی ایک جج ہوں، ہمارے بچے بیویاں تو یہاں موجود ہیں۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سن لینے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی درخواستوں پر سماعت مکمل کرلی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت مکمل ہوگئی جس پر سپریم کورٹ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔