علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ سیاستدانوں اور افسر شاہی میں سے کسی کو بھی اس ریگزار ضلع کے عوام کی خدمت میں کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں۔
معلومات کے مطابق وہ تمام آر او پلانٹس جو کہ پیپلز پارٹی نے علاقہ کے باسیوں کو صاف پانی مہیا کرنے کے لیئے لگائے تھے وہ سب کے سب عملے کی عدم تنخواہوں کے باعث بند ہو چکے ہیں۔
یاد رہے کہ 18 لاکھ سے زائد باسیوں کو پانی کی فراہمی کے لئے 10 ارب کی لاگت سے 600 آر او پلانٹس ضلع تھرپارکر میں لگائے گئے تھے۔
عملے کے افراد کا کہنا ہے کہ انہیں ایک پرائیویٹ کمپنی نے ملازم کیا ہوا تھا وہ دوبارہ تب ہی کام شروع کریں گے جب کہ انہیں معاوضے کی ادائیگی کی جائے گی۔ معلومات کے مطابق پاکستان اواسس نامی اس کمپنی کو تھرپارکر کے ضلع میں شہری آبادی، قصبوں اور دیہاتوں میں 750 پلانٹس لگانے کا ٹھیکہ دیا گیا تھا تاہم وہ سندھ حکومت کی اعلی سطح سے فنڈز کی عدم ترسیل کی وجہ سے تمام تر پلانٹس نہیں لگا سکی تھی۔ اس معاہدے کو ختم ہوئے ایک سال ہو گیا ہے اور اب کوئی بھی کمپنی ان لگے ہوئے پلانٹس کو چلانے کا ٹھیکہ لینے کو تیار نہیں ہے۔ اس بابت یہ بھی اہم ہے کہ محکمہ پبلک ہیکتھ انجینئرنگ نے ان پلانٹس کو چلانے کے لیئے دس بار ٹینڈر دینے کی کوشش کی ہے لیکن وہ بے سود رہی۔ محکمہ کے عہدہداران نے بتایا کہ انہوں نے حکومت سندھ کو ورکرز کی تنخواہوں کے حوالے سے بھی بار ہا مطالبہ کیا ہے۔ پرائیویٹ کمپنی نے 700 سے زائد افراد کو ملازم کیا تھا جن کا کام پلانٹس کو لگانا اور انکو چلانا تھا۔ ان پلانٹس میں مصری شاہ کے قریب ایشیا کا سب سے بڑا آر او پلانٹ بھی تھا جس کا افتتاح آصف علی زرداری نے 2015 میں کیا تھا۔
یونین ورکرز نے بتایا کہ وہ بھی چاہتے تھے کہ یہ پلانٹس بند نہ ہوں لیکن تنخواہوں کی مسلسل عدم ادائیگی کی بدولت وہ مجبور تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پلانٹس کی اکثر مشینری زنگ آلود ہو چکیہے اور خدشہ تھا کہ مقامی افراد سولر پینلز وغیرہ چوری کر کے نہ لے جائیں۔ تھرپارکر میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق خدشہ ہے کہ زہر آلود پانی پینے سے یہاں اموات ہو سکتی ہیں اور وبائیں پھوٹ سکتی ہیں۔ یہ حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے کہ ان پلانٹس کو فعال کرے۔
اب جبکہ سندھ حکومت ان پلانٹس کو چلانے میں ناکام ہے تو سندھ میں پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ پر ایک تھر فاونڈیشن نامی ادارہ 17 سے زائد آر سو پلانٹس کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ انکے پلانٹس تعلوقا اسلام کوٹ میں لگے ہیں جو گزشتہ 4 سال سے چل رہے ہیں اور پچیس سے 30 ہزار افراد کو پانی مہیا کر رہے ہیں۔
ادارے کے تعجمان محسن بابر نے کہا کہ آر او پلانٹ چلانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ یہاں خواتین پانی کا انتظام کرتی ہیں۔ تو ہم نے ان پلانٹس کے آپریٹرز خواتین کو معمور کیا۔ یہ ٹرینڈ خواتین آپریٹرز پلانٹ چلاتی بھی ہیں اور اسے مینیٹین بھی رکھتی ہیں۔ ترجمان کے مطابق اس مسئلے کا حل موجود ہے جبکہ ایک تجویز بھی ان کے ادارے نے سندھ حکومت کو دی تھی کیونکہ وہ یہ پلانٹ چلا سکتے ہیں لیکن بہر حال اس حوالے سے بھی سندھ حکومت کی اجازت کے بغیر یہ نہیں ہوسکتا۔