الیکٹرانک میڈیا، سیاسی بیانیہ اور عوام

11:56 AM, 26 Apr, 2022

سید واجد حسین شاہ
کسی بھی جمہوری معاشرے میں لوگوں کی ذہن سازی کا کام بڑے پیمانے پر سیاست کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ یہ ذمہ داری تمام سیاسی رہنماؤں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار، سماجی انصاف، تعمیری معاشرتی سرگرمیوں، انسانی حقوق، اظہار رائے کی آزادی اور ایماندارانہ رویہ کو فروغ دیں۔ یہ آگاہی بڑے پیمانے پر میڈیا کے ذریعے پہنچائی جاتی ہے۔

موجودہ دور میں الیکٹرانک میڈیا پوری دنیا میں اپنی موجودگی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عوام تک پیغام پہنچانے کا سب سے طاقتور اور تیز ترین ذریعہ ہے۔ جمہوری معاشروں میں موثر ذہن سازی سے عوام میں یہ شعور پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیسے اپنی پسند کا لیڈر منتخب کر سکتے ہیں اور لوگوں کو کسی بھی سیاسی رہنما کو منتخب یا مسترد کرنے کی ان کی طاقت سے آگاہ کرنے میں میڈیا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ بیانیہ ایک تحریری یا زبانی پیغام ہے جو ایک سیاسی رہنما اپنے حامیوں اور لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔

سیاسی رہنما اپنے منشور کی حمایت کے لیے ایک 'بیانیہ' تیار کرتے ہیں جسے وہ عوام کے سامنے پیش کرکے بار بار دہراتے ہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ کیا بات کر رہے ہیں اور کیوں کر رہے ہیں۔ ایک بیانیے کے صحیح یا غلط ہونے کا دارومدار اس کے مندرجات پر ہوتا ہے۔

ایک بیانیہ اس وقت پروپیگنڈا کے زمرے میں آتا ہے جب اس کے مندرجات جھوٹ اور دھوکا دہی پر مبنی ہوں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہوں۔ پروپیگنڈا پر مبنی بیانیہ لوگوں کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ایک سیاسی رہنما بڑے پیمانے پر لوگوں کی توجہ اور حمایت حاصل کر سکے۔ ایسے بیانیے کو اکثر منفی بیانیہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہ حقیقی سماجی مسائل کو حل نہیں کرتا اور جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ بیانیہ عوام کو الجھاتا ہے اور صحیح اور غلط کے فرق کو ختم کرتا ہے۔

اندھے حامی وپیروکار الیکٹرانک میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے منفی بیانیے کو مزید آگے بڑھاتے ہیں اور لوگوں کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ بیانیہ سچ ہے کیونکہ یہ ان کا لیڈر یا پیشوا کہہ رہا ہے اور لوگوں کو اس پر آنکھیں بند کرکے یقین کرنے کے لئے قائل کرتے ہیں۔ کمزور جمہوری معاشروں میں اس طرح کے پروپیگنڈے معمول کی بات ہیں حالانکہ یہ ایک گمراہ کن عمل ہے۔

آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں ایک منفی بیانیہ آسانی سے الیکٹرانک میڈیا (بشمول سوشل میڈیا) کے ذریعے بڑے پیمانے پر عوام تک پہنچایا جا سکتا ہے اوریہ عوام کو گمراہ کرنے کا جدید اور سستا طریقہ ہے۔ مہذب معاشرے کے لوگ بڑی حد تک اس طرح کے بیانیے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور وہ اپنے لوگوں کو تعلیم دیتے ہیں کہ جو ان کے لئے بہتر ہے وہ اسے قبول کریں ۔ انہیں اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کرنی چاہیے کہ کوئی بھی لیڈر اپنی انا کی تسکین کے لئے کیا 'بیانیہ' بیچ رہا ہے۔ بلکہ عوام کو ایسے لیڈر سے پوچھنا چاہیے کہ آپ ابھی کوئی بیانیہ نہ بیچیں بلکہ پہلے ہمیں یہ بتائیں کہ کیا آپ نے اپنے وعدے پورے کیے ہیں جو آپ نے کیے تھے؟

عوام کی بہتری کے لیے آپ کی کارکردگی کیا ہے؟ کیا آپ لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لائے ہیں؟ یقینی طور پر ایسے سوالات کا جواب کسی پروپیگنڈے سے نہیں ملے گا، اس کے لیے حقیقی کارکردگی کی ضرورت ہے جو کہ ایک پروپیگنڈے کی قیادت کرنے والا لیڈر کبھی نہیں دے سکتا۔

پاکستان کا موجودہ سیاسی منظرنامہ اس تجزیے سے مطابقت رکھتا ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک ایسا لیڈر جس نے عوام سے کئی وعدے کئے لیکن کوئی بھی وعدہ پورا نہ کرسکا اور آئینی طور پر نکالے جانے کے بعد اب سوشل میڈیا کے ذریعے اندھے پیروکاروں کا سہارا لے کر عوام کے سامنے سازش کے بیانیہ کو فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب یہ لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ اس لیڈر سے کارکردگی کا سوال کرتے ہیں یا اس کے منفی پروپیگنڈے میں پھنستے ہیں کیونکہ الیکٹرانک میڈیا کسی بھی بیانیے کو عوام تک پہنچانے کے لیے سرگرم ہے۔
مزیدخبریں