پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ خاصا حیران کن ہے، خصوصاً اگر اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ پاکستان میں ٹوئٹر کے صارفین کی کل تعداد 3 اعشاریہ 4 ملین ہے جن میں بہت سے اکائونٹس معطل اور کچھ صارفین کے ایک سے زائد اکائونٹس ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا غیرمنطقی ہوگا کہ وہ 80 ملین ٹویٹس 'اورگینک' اکائونٹس سے آئی ہیں۔
اگر ان اعداد و شمار کو درست مان لیا جائے تو اس کے معانی یہ ہوں گے کہ ہر پاکستانی صارف نے مذکورہ 'ہیش ٹیگ' 23 بار ٹوئیٹ یا ری ٹوئیٹ کیا۔ ایسا ہونا نامکن ہے کیونکہ مخالف خیالات رکھنے والے بہت سارے صارفین اسے ٹوئیٹ نہیں کر سکتے۔
وفاقی وزیر برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کے مطابق مذکورہ ٹرینڈ 177 صارفین کی جانب سے بنایا اور چلایا گیا، جب کہ باقی ماندہ 'بوٹس' تھے۔ بوٹس سافٹ ویئر سے چلنے والے وہ پروگرامز ہوتے ہیں جو کئی اقسام کے کام سرانجام دے سکتے ہیں جیسا کہ کچھ انِ پٹ کے نتیجے میں ٹوئیٹ، میسج اور ری ٹوئیٹ کرنا۔ ان کا کہنا تھا کہ کل 924 اکائونٹس نے اس بھاری بھرکم کام کو سرانجام دیا۔
نیا دور- دی فرائڈے ٹائمزسے گفتگو کرتے ہوئے ٹیکنالوجی، 'مسِ انفارمیشن' اور انسانی حقوق کے امور میں ماہر رمشا جہانگیر کا کہنا تھا کہ سابق حکمراں جماعت کا تجزیہ ایک بالکل مختلف ہیش ٹیگ کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کی آفیشل ٹیموں نے علیحدہ ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرایا؛ دونوں میں حروف کا فرق ہے۔ اگرچہ دونوں ٹرینڈز کو جانچنے کے حوالے سے مکمل معلومات میسر نہیں لیکن پھر بھی ایک بحث چل پڑی ہے کہ آیا یہ اورگینک ہیں کہ نہیں۔
"ایک ٹرینڈ کے برقرار رہنے کا تعلق اس کے اورگینک اور انِ اورگینک دونوں قسم کی ٹوئیٹس سے ہوتا ہے، لیکن وہ پروان انِ اورگینک طریقوں سے ہی چڑھتا ہے"۔ یہ کہنا ہے اوہائیو یونیورسٹی کے کمیونیکیشنز ریسرچر سعید رضوان کا۔ ان کے تجزیے کے مطابق ایک لاکھ ٹوئیٹس کے سیمپل سائز میں سے صرف 32 فیصد ٹوئیٹس حقیقی صارفین کی جانب سے کی گئیں۔
رضوان نے دوسرے مرحلے میں 736،000 ٹوئیٹس کا جائزہ لیا جن میں سے فقط 13 فیصد درست نکلیں، جس کے معانی یہ ہوئے کہ صرف 108،000 ٹوئیٹس حقیقی صارفین کی جانب سے کی گئی تھیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیمپل سائز کو بڑھانے کی صورت میں یہ شرح 10 فیصد سے بھی نیچے جا سکتی ہے۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسے کئی اشاریے ہیں جن کی مدد سے کسی ان اورگینک طریقہ کار کا اندازاہ لگایا جا سکتا ہے۔
رمشا نے یہاں اضافہ کیا کہ پی ٹی آئی کا ٹرینڈ دونوں نوعیت کے طریقوں کا مجموعہ ہے۔ جیسا کہ کچھ اکائوٹس نے ایک ہی ٹوئیٹ کو 1000 بار ری پوسٹ کیا، جس میں ٹوئیٹس، ری ٹوئیٹس اور لائکس شامل ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب نسبتاً بڑے اکائونٹس کوئی ہیش ٹیگ پوسٹ کرتے ہیں تو زیادہ ٹریفک اور والیوم مرتب ہوتا ہے۔
رمشا نے کہا کہ ' امپورٹڈ حکومت نامنظور' ٹرینڈ کے دوران 17 ملین سے زائد ٹویٹس نظر آتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقی صارفین بھی اب گفتگو کا حصہ بن رہے ہیں اور یوں کچھ اورگینک سرگرمی بھی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
دونوں تجزیہ کاروں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ مارچ میں بڑٰی تعداد میں ٹوئٹر اکائونٹس بنائے گئے، اور رضوان کے مطابق یکم اپریل سے 11 اپریل تک روزانہ اوسطاً 1300 اکائونٹس بنائے گئے۔ البتہ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ اکائونٹس بوٹس یا جعلی تو نہیں۔
کیا مذکورہ ٹرینڈ دنیا کے بڑے ترین ٹرینڈز میں سے ایک تھا؟ یہ بات بھی موضوع بحث رہی ہے۔ رمشا کے مطابق ٹوئٹر اس بات کے تعین کے لئے کچھ معیارات مقرر کرتا ہے جن کے مطابق مذکورہ ہیش ٹیگ 9 اپریل کو دنیا کے صفِ اول کے ٹرینڈز میں سے تھا، لیکن دلچسپ بات یہ کہ کئی ملین ٹوئیٹس کے باوجود بعد میں یہی ٹرینڈ نیچے آ گرا۔ اس کی ممکنہ بنیادی وجہ اس کے اطراف موجود مشکوک سرگرمی ہے اور یہی امر اس کے مسلسل عروج کی راہ میں رکاوٹ بنا۔
رضوان نے مزید سوال یہ اٹھایا کہ دعوے کے مطابق اس ضمن میں 8 ملین سے زائد ٹوئیٹس کی گئیں لیکن اس کے باوجود ٹرینڈ دیگر عالمی ٹرینڈز میں جگہ بنانے میں ناکام رہا، اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ایک ممکنہ وجہ ٹوئیٹس کا جغرافیے کے اعتبار سے مخصوص علاقوں یا موبائل ڈیوائسز سے کیا جانا ہے، جب کہ اورگینک سرگرمی کے ذریعے یہ اب بھی عالمی ٹرینڈز میں جگہ بنا سکتا ہے۔
تجزیہ کار کے مطابق اصل کلید مستقل اور حقیقی ٹوئیٹس میں ہے، جس کی ایک مثال سندھ کا 'بوگس ڈومیسائل' ٹرینڈ ہے جو صفِ اول کے عالمی ٹرینڈز میں جگہ بنانے میں کامیاب رہا۔