ایک سال سے زیادہ عرصے سے پاکستان کی سیاسی جماعتیں انتخابات کے انعقاد پر جھگڑ رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان قومی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد کو بعد میں کروانے اور پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات عام انتخابات سے قبل کروانے پر زور دے رہے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی قیادت والی مخلوط حکومت تمام انتخابات ایک ہی وقت پر کروانے کو ترجیح دیتی ہے۔ قومی اسمبلی کے انتخابات رواں سال کے آخر میں منعقد ہونے ہیں۔
حالیہ سیاسی رسہ کشی کے درمیان چیف جسٹس عمر عطاء بندیال پنجاب اسمبلی کے انتخابات سے متعلق لیے گئے ازخود نوٹس کے باعث جانچ پڑتال کی زد میں ہیں۔ رواں ماہ کے آغاز میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بنچ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے 14 مئی کی نئی تاریخ مقرر کی تھی۔ نئی تاریخ مقرر کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس فیصلے کو مسترد کر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ صوبے میں انتخابات کا انعقاد 10 اپریل سے ملتوی کر کے 8 اکتوبر کو عمل میں لایا جائے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ شہباز شریف کی حکومت کے لیے بڑا دھچکا ہے جو 13 جنوری کو تحلیل ہونے والی پنجاب اسمبلی کے انتخابات مؤخر کرنے کے جتن کر رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت قومی اسمبلی کے انتخابات سے قبل پنجاب میں انتخابات کروانے کے حق میں نہیں ہے۔
قواعد و ضوابط کا تقاضا ہے کہ انتخابات نگران حکومتوں کے تحت منعقد کروائے جائیں۔ پنجاب میں منتخب حکومت کی موجودگی میں، خاص طور پر ایسی منتخب حکومت جس کی قیادت اپوزیشن پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے ہاتھ میں ہو، ایسی صورت میں عام انتخابات میں پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے اور انتخابی لحاظ سے اہم ترین صوبے میں حکمران اتحاد کی کامیابی کے امکانات مفقود ہو سکتے ہیں۔
شہباز شریف کی حکومت نے 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کھلے بندوں یہ کہتے ہوئے اعتراض اٹھایا ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے پی ٹی آئی کو انتخابات جتوانے کے لیے سہولت کاری فراہم کرنا مقصود ہے۔ پی ٹی آئی جسے پاکستان میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہے، کو یقین ہے کہ وہ پنجاب میں ہونے والے انتخابات جیت سکتی ہے، جس کے نتیجے میں پورے پاکستان میں قومی اسمبلی کے انتخابات کے موقع پر اسے پنجاب میں انتظامی لحاظ سے برتری حاصل ہو گی۔
پنجاب میں انتخابات سے متعلق پاکستان تحریک انصاف کی پٹیشن پر آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت چیف جسٹس کی جانب سے ازخود نوٹس لے کر کارروائی شروع کرنے کے اقدام پر سپریم کورٹ کے ججز کے اٹھائے گئے اعتراضات کے منظرعام پر آنے کے بعد چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے اختیار اور غیر جانبداری کو مزید نقصان پہنچا ہے۔
جب چیف جسٹس بندیال نے پنجاب میں قبل از وقت انتخابات کے حق میں فیصلہ سنایا تو کئی اعلیٰ ججز نے فیصلہ دیا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ازخود نوٹس کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کر دیا گیا تھا۔ ججز کی جانب سے یہ اعتراض ان کی اس سوجھ بوجھ پر مبنی تھا کہ سپریم کورٹ کے تمام ارکان سے مشورہ کیے بغیر اس طرح کی کارروائی نہیں شروع کی جانی چاہئیے اور یہ بھی کہ مذکورہ معاملہ صوبائی عدالتوں میں زیر التوا ہے اور عوامی مفاد کے معاملے کے معیار پر بھی پورا نہیں اترتا۔
حکمران اتحاد اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کروانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ ان کا خیال ہے کہ مذکورہ فیصلوں پر عمل درآمد کروانے سے آئندہ عام انتخابات میں اس کے انتخابی امکانات کو زک پہنچے گی۔
دریں اثنا الیکشن کمیشن آف پاکستان نے شکایت کی ہے کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی رضامندی کے بغیر پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دے کر اس کے آئینی اختیار کو مجروح کیا ہے۔
اس صورت حال سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کے لیے پارلیمنٹ نے ازخود نوٹس پر یکطرفہ طور پر کارروائی کرنے کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے کے لیے قانون سازی کی کوشش کی ہے۔ تاہم اپریل کے شروع میں چیف جسٹس بندیال نے فیصلہ سنا دیا تھا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کرنے والا بل چاہے قانون بن بھی جائے تاہم یہ غیر مؤثر رہے گا۔ چیف جسٹس کا یہ حکم پارلیمان کی قانون سازی کی اہلیت کو عملی طور پر نقصان پہنچاتا ہے۔
حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ کے ججز کے احکامات کے خلاف ریاست بغاوت پر تُلی نظر آ رہی ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر الیکشن کمیشن کو براہ راست فنڈز فراہم کرنے کے چیف جسٹس کے حکم کی تعمیل سے انکار کر دیا ہے۔ وزارت دفاع نے واضح کر دیا ہے کہ انتخابات کے لیے وہ سکیورٹی اہلکار فراہم نہیں کر سکتی کیونکہ اہلکار ملک بھر میں جاری فوجی کارروائیوں میں مشغول ہیں۔ اسی دوران سپریم کورٹ کے دباؤ پر پی ڈی ایم حکومت نے پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا جب عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے ان معاملات میں مداخلت کرنے کی کوشش کی ہے جو ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں، یا ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جو عدلیہ کے قانونی جواز کو مجروح کرتے ہیں اور جن سے اندرون و بیرون ملک پاکستان کے مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
سپریم کورٹ کے ججوں کے فیصلوں نے درحقیقت پاکستان کو کمزور کیا ہے اور یہ فیصلے پالیسی سازوں کے لیے مصیبت اور عالمی سرمایہ کاروں کے لیے تشویش کا باعث بنے ہیں۔ 2013 میں ریکوڈک معاہدے سے متعلق سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چودھری کا سنایا گیا فیصلہ اس سلسلے کی ایک قابل ذکر مثال ہے۔ مذکورہ فیصلے نے عالمی سرمایہ کاروں کی نظر میں پاکستان کی ساکھ کو ٹھیس پہنچائی تھی اور اس سے ملک کو مالی طور پر بھی شدید نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے بھی اپنے دور اختیار کے دوران ایسے متعدد معاملات سے متعلق متنازع فیصلے سنائے جو ان کے آئینی دائرہ اختیار سے باہر تھے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نا صرف ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈ اکٹھے کرنے کے متنازع اقدام کے سرخیل بنے بلکہ سوموٹو اختیارات کا غیر معمولی استعمال کرتے ہوئے انہوں نے روزمرہ کے انتظامی امور میں بھی بار بار مداخلت کی۔
سپریم کورٹ کو قانون کی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تشریح فراہم کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ تاہم عدالت عظمیٰ کے حالیہ فیصلوں نے ملک میں غیر یقینی کی فضا پیدا کر دی ہے جہاں شہری اس تذبذب میں مبتلا ہیں کہ ان فیصلوں پر عمل درآمد کیسے ممکن ہو پائے گا۔ اب یہ سپریم کورٹ پر منحصر ہے کہ وہ ثابت کرے کہ عدلیہ غیر جانبدار رہ سکتی ہے اور سیاست کے بجائے آئین کو مدنظر رکھ کر فیصلے سنا سکتی ہے۔ صرف اسی صورت میں عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال ہو سکتا ہے اور سپریم کورٹ کا ادارہ اور ملک دونوں مزید نقصان پہنچنے سے بچ سکتے ہیں۔
عمیر جمال کا یہ مضمون The Diplomat میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لیے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔