راولپنڈی یہ تمام کام کرتا ہے یا نہیں، لیکن ایک بات واضح ہے کہ یہ ایک اچھا ماحول اپنے مہمان کو فراہم نہیں کر پاتا۔ اگر آپ پوش علاقے میں نہیں رہ رہے یا کسی پوش علاقے میں رہنے کے لیے نہیں آئے تو آپ کو جگہ جگہ نشئی ملیں گے۔ راولپنڈی کے ویران علاقے شاید انہیں پسند نہیں اس لیے یہ دن دیہاڑے سر راہ بیٹھ کر اپنی فکروں کو دھویں کی شکل میں اڑاتے ہیں، کبھی مسائل کا سفوف بنا کر سانس کے ساتھ کھینچتے ہیں تو کبھی خوشیوں کو سوئی کے ذریعے جسم میں داخل کرتے ہیں۔
یہ تمام کام قانون کی ناک کے نیچے اور عوام کی آنکھ کے سامنے ہر روز ہوتا ہے لیکن یہ سلسلہ نہ ہی رکا اور نہ ہی رکتا نظر آتا ہے۔ کوئی شخص غلط صحبت سے نشے کی طرف گیا یا اس نے مسائل سے بچنے کی راہ نشے میں تلاش کی یا جو بھی مسئلہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ قانون کس لیے ہوتا ہے؟ کیا اس لیے کہ اگر کوئی شخص مرنے کا ارادہ کر لے تو قانون اس کو مرنے میں مدد فراہم کرے؟ کیا قانون گرتی دیواروں کو دھکا دینے کے لیے رہ گیا ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ اگر اپنے ہوش و حواس سے عاری یہ لوگ نشے کا سامان حاصل کر سکتے ہیں تو کیا ہماری چاک و چوبند پولیس کو ان ٹھکانوں کا پتہ معلوم نہیں ہوگا؟ اور اگر واقعی معلوم نہیں تو پھر ان نشئیوں کو کیوں نہ پولیس کی وردیاں دے دی جائیں تاکہ منشیات فروشوں کو پکڑنے میں کچھ مدد تو ملے۔
ہمارے وزیر برائے انسداد منشیات کو مہنگی مہنگی یونیورسٹی کے طلبا تو آئس استعمال کرتے نظر آتے ہیں لیکن کیا انہیں یہ غلط راہ پر چلتے غریب نظر نہیں آئے؟ کیا وزرا کے دلوں میں بھی صرف امرا کے چشم و چراغ بستے ہیں؟
میرا ذاتی خیال ہے کہ راتوں کو تھانوں پر چھاپہ مارنے کے بجائے اگر وزیر صاحب راولپنڈی کے بس اڈوں، جامع مسجد روڈ، باغ سرداراں وغیرہ کا دن کی روشنی میں دورہ کرلیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔