1996 سے بچوں کے جنسی استحصال سے تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ساحل کی رپورٹ میں جنسی استحصال کے واقعات میں اضافے کی وجہ کرونا وائرس عالمی وبا کو قرار دیا گیا کیوں کہ بچے گھروں میں تھے اور 55 فیصد واقعات میں استحصال کرنے والے جاننے والے تھے۔
رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ سال کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران روزانہ 8 سے زائد بچے استحصال کا نشانہ بنے، جس میں سے 785 کم سن لڑکیاں اور 704 لڑکے شامل ہیں۔
اس میں کیسز کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اغوا کے 331، بدفعلی کے 233، بچوں کے لاپتا ہونے کے 168، ریپ کے 160، ریپ کی کوشش کے 134، گینگ بدفعلی کے 104، بدفعلی کی کوشش کے 93، گینگ ریپ کے 69، بچوں کی شادی کے 59 اور جنسی زیادتی کے بعد بچوں کے قتل کے 38 واقعات رپورٹ ہوئے۔
مجموعی اعداد و شمار کے مطابق ان کیسز میں 53 فیصد لڑکیاں جبکہ 47 فیصد لڑکے استحصال کا شکار بنے۔ اس میں 490 متاثرین کی عمر 11 سے 15 برس، اور 331 کی عمر 6 سے 10 سال کے درمیان تھی۔
رپورٹ کے مطابق استحصال کے 57 فیصد واقعات پنجاب، 32 فیصد سندھ اور 6 فیصد خیبرپختونخوا میں رپورٹ ہوئے۔ اسلام آباد میں 35 سے زائد، بلوچستان میں 22، آزاد کشمیر میں 10 اور گلگت بلتستان میں ایک کیس رپورٹ ہوا۔
اسی طرح دیہی علاقوں میں بچوں کے استحصال کے واقعات کی شرح 62 فیصد جبکہ شہری علاقوں میں 38 فیصد رہی۔
ڈیٹا سے یہ بات سامنے آئی کہ 90 فیصد کیسز کا پولیس کے پاس اندراج کروایا گیا، 135 کیسز کے اندراج کی خبر اخبارات میں شائع نہیں ہوئی، 7 کیسز پولیس میں درج نہیں کروائے گئے جبکہ 7 کیسز پولیس نے درج کرنے سے انکار کر دیا۔
رپورٹ کے مطابق 28 فیصد کیسز ان مجرمان کے گھروں میں رونما ہوئے جو بچوں کے جاننے والے تھے، 11 فیصد متاثرہ بچوں کے اپنے گھروں، 8 فیصد گلیوں، 4 فیصد کھیتوں جبکہ 11 فیصد کیسز دیگر مقامات پر رونما ہوئے۔ رپورٹ ہونے والے تمام کیسز میں 59 فیصد مجرم جاننے والے، ایک فیصد اجنبی جبکہ 6 فیصد جاننے والے اجنبیوں کے ساتھ تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پڑوسی، رشتہ دار، مولوی صاحبان، اساتذہ، پولیس اور دکاندار بھی متاثرہ بچوں کے جاننے والے تھے جبکہ خونی رشتہ دار بھی بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث پائے گئے۔