پاکستان سے الحاق کی حمایت کرنے والا اکبر بگٹی کوہلو کے غار میں کیوں مارا گیا؟

01:14 PM, 26 Aug, 2020

مظہر آزاد
26 اگست 2006 کے وہ خوفناک لمحے جب پاکستان کا ایک ڈکٹیٹر کوہلو کی حسین وادیوں پر ایک آفت بن کر ٹوٹ پڑا تھا۔ جہاں پر ایک ستر سالہ بوڑھا شخص، ہاتھ میں عصا تھامے اپنے قبیلے اور دیگر بلوچ نوجوانوں کے ہمراہ اپنی ہی سرزمین پر ایک پناہ گزین کی سی زندگی بسرکر رہا تھا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ ہم پر جنگ مسلط کی گئی ہے اور ہم اس سرزمین اور اس کے وسائل کے مالک ہیں، ہمیں یہ پورا اختیار حاصل ہے کہ اپنے دفاع کو اپنے محدود وسائل کے ذریعے یقینی بنائیں۔

نواب اکبر خان بگٹی 12 جولائی 1927 بروز منگل بارکھان حاجی کوٹ میں پیدا ہوئے۔ نواب صاحب کے بچپن کا نام شہباز خان تھا۔ ابتدائی تعلیم ڈیرہ بگٹی سے حاصل کی۔ بعد میں ان کے والد محراب خان نے ایچی سن کالج میں داخل کروایا۔ وہ ابھی زیرِ تعلیم تھے کہ 1939 میں ان کے والد صاحب وفات پا گئے۔ نواب صاحب نے نوابی کی ذمہ داری سنبھالی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1944 میں باقاعدہ سردار کی حیثیت سے فعال ہوئے۔ نواب صاحب کی تین بیویاں تھی، ایک بگٹی، ایک پٹھان اور ایک کا تعلق سندھ سے ہے۔ پہلی بیوی سے چار بیٹے سلیم، ریحان، طلال، بسلال، دوسری سے ایک لڑکا جمیل اکبر اور دو بیٹیاں ہیں، تیسری کا ایک بیٹا ہے۔

28 نومبر 1946 کو مری بگٹی قبیلے کے دو سردار دودا خان مری اور نواب صاحب نے ایک درخواست کے ذریعے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے قبائلی علاقے بھی قلات فیڈریشن میں شامل ہونے چاہئیں کیونکہ اس وقت بلوچستان کے دو حصے تھے، قلات اور برٹش بلوچستان۔ اگرچہ انہیں ابتدائی دنوں میں سیاست کا شوق نہیں تھا لیکن 1947 میں برطانیہ کے زیر انتظام بلوچستان کی پاکستان یا انڈیا میں شمولیت کے سوال پر جو محدود ریفرنڈم ہوا اس میں انہوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد 1950 میں نواب اکبر بگٹی ایجنٹ ٹو گورنر جنرل کونسل رکن بننے کے دوران مشیر بنے۔ 1958 میں ضمنی الیکشن جیت کر حکومت کا حصہ بنے۔ ملک فیروز خان نون کی کابینہ میں بحیثیت نائب وزیر دفاع شامل رہے۔ اس عہدہ پر ایک سال تک فائز رہے۔ اِس کے علاوہ وہ داخلہ کے وزیر مملکت بھی رہے۔ مختصر وزارت کے دور میں ان کا واحد اور بڑا کارنامہ گوادر کی مسقط سے خریداری تھا۔

جب 1955 میں پاکستان کے مغربی حصے کے تمام صوبوں اور ریاستوں کے ساتھ دونوں حصوں کو یکجا کر کے ون یونٹ کے تحت مغربی پاکستان کے صوبے میں یکجا کر دیا گیا۔ 1956 میں قائم شدہ (نیپ) نیشنل عوامی پارٹی کو بلوچستان میں اس وقت مزید پذیرائی ملی جب ایوب کے دور حکومت کے آخر میں حکومتی جبر و تشدد کے باعث تین سردار نواب خیر بخش مری، نواب اکبر خان بگٹی اور سردار عطااللہ مینگل نیپ میں ہمسفر ہو گئے۔ اس وقت کا نعرہ یہ تھا: اتحاد کا ایک نشان عطا اللہ، خیر بخش، اکبر خان۔

نواب اکبر خان بگٹی، سردار عطااللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری شیعہ ہزارہ برادری کے ساتھ


ایوب مارشل لا میں بگٹی صاحب پہلے منشیات فروشی کے جرم میں گرفتار ہوئے۔ جب یہ الزام ثابت نہ ہوا تو ان پر ہیبت بگٹی کے قتل کا الزام لگایا۔ اقرار جرم کروانے کے لئے ان پر بدترین تشدد ہوا۔ میجر علی شیر باز جو اس وقت ٹارچر کے ماہر تھے نے بگٹی صاحب پر ہر طریقہ استعمال کیا مگر ناکام رہے۔ نوابوں کو آرام طلب سمجھا جاتا تھا۔ بگٹی صاحب نے یہ بات غلط ثابت کی۔ صداراتی الیکشن میں انہوں نے فاطمہ جناح کی حمایت کی۔ ان کو گرفتار کیا گیا۔ ڈیرہ بگٹی سے ایوب کو سو فیصد ووٹ ملے۔ نواب صاحب بھی گرفتار ہوئے، ان پر بغاوت اور قتل کا الزام لگایا گیا۔ نواب صاحب سینٹرل جیل کراچی اے کلاس وارڈ نمبر 19 میں رہے۔ مارشل لاء کے بعد ایک قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے اور چودہ سال قید کی سزا دی گئی لیکن وسط جولائی 1961 میں رہا ہوئے۔ اُن کے بیٹے جمیل بگٹی کے مطابق میں جب 10 سال کا تھا تو پہلی دفعہ میرے والد 1959 میں جیل چلے گئے۔ پھر ایوب خان کے 10 سالہ دور میں میرے والد ساڑھے آٹھ سال مختلف جیلوں میں رہے۔ یوں ہم نے ایک طرح سے سارا پنجاب ہی گھوم لیا، کبھی ساہیوال اور کبھی لائل پور لے جاتے۔ اس زمانے میں فیصل آباد کا نام لائلپور تھا۔ ایوب خان کے زمانے میں گرمیوں میں قیدیوں کو ملتان اور سبی میں رکھا جاتا جب کہ سردیوں میں انہیں کوئٹہ جیل بھیج دیتے تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ تکلیف ہو۔

نواب صاحب پر ایوبی دور حکومت میں ایبڈو کی پابندی لگائی گئی تھی۔ وہ دس سال تک سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ 1970 کا الیکشن نہ لڑ سکے۔ اُن کی ہنگامہ خیز سیاسی زندگی کا آغاز ون یونٹ ٹوٹنے اور 1970 کے عام انتخابات سے ہوا۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ یا مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے جب 1970 کے عام انتخابات کے نتائج قبول کرنے اور اقتدار بنگالیوں کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا، تو نواب بگٹی ایک الٹرا بلوچ قوم پرست کے طور پر سامنے آئے۔

ایوبی حکومت کے خاتمے کے بعد ہی نواب مری اور سردار مینگل نے باقاعدہ نیپ میں شمولیت اختیار کی۔ نواب اکبر خان بگٹی اگرچہ ایبڈو کے سبب پارٹی میں شامل نہ ہو سکے لیکن وہ نیپ کی مکمل حمایت کرتے رہے۔

1963 میں بلوچستان آپریشن شروع ہوا جس میں ایرانی فضائیہ کی مدد طلب کی گئی۔ ایرانی جہاز ایف۔14 اوراے۔ایچ۔ون ہیلی کاپٹر کی بلوچستان پر بمباری کی وجہ پاکستانی فضائیہ کا 1971 کی جنگ میں نقصان تھا۔ بگٹی صاحب نے حکومت کا ساتھ دیا اور گورنر مقرر ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں نواب صاحب کو گورنر بلوچستان کی حیثیت دس ماہ تک ملی، پھر اختلافات پر استعفا دے کر گھر جا بیٹھے۔ اکبر بگٹی صاحب نے گورنر کا منصب اس شرط پر قبول کیا تھا کہ حالات بہتر ہوتے ہی آپریشن ختم کر دیا جائے گا مگر وعدے کے باوجود یہ کارروائی جاری رہی۔ بگٹی صاحب اس وعدہ خلافی سے مایوس ہوئے۔ جنوری 1974 میں انہوں نےاستعفا دے دیا۔ بگٹی صاحب اس کے بعد کبھی پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد میں شامل نہیں ہوئے۔

1980 میں نواب صاحب نے سیاسی حکمت عملی کا انوکھا اور منفرد طریقہ اختیار کیا۔ انہوں نے مارشل لاء حکومت پر سیاسی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی اور ضیا کے دور میں اردو بولنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے ہر جگہ اپنی مادری زبان میں تقریریں کیں۔ پھر 1988 کے انتخابات میں اردو بولنا شروع کیا۔ 1988 کےانتخابات میں نواب صاحب نے آزادانہ طور پر حصہ لیا۔ انہوں نے بلوچ نیشنل الائنس کی رہنمائی کی اور انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان مقرر ہوئے۔



1989 میں اکبر بگٹی نے نواز شریف سے اتحاد کیا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان بنے۔ 16 اگست 1990 کو جمہوری وطن پارٹی کی داغ بیل ڈالی۔ 1992 میں اپنے وارث سلیم بگٹی کے قتل کے بعد وہ کوئٹہ، اسلام آباد واپس نہیں آئے۔ بلکہ انہوں نے عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ اس دوران ان کا وقت اپنی لائبریری میں گزرتا۔
کہتے ہیں کہ نواب اکبر بگٹی صاحب کی لائبریری عجائبات کا خزانہ تھی۔ متروک اخبارات، نادر کتب، شاہکار پینٹنگز، اس کے علاوہ وہ فلمیں جو شاید برصغیر کی ابتدائی فلمیں تھیں، ان کے پاس موجود تھیں۔ بگٹی صاحب کبھی کسی کتاب پر کچھ نہیں لکھتے تھے بلکہ الگ صفحات پر اس کی اہم باتيں تحریر کرتے تھے۔

اکتوبر 1990 کے انتخابات کے بعد پاکستان میں جو حکومتی ڈھانچے قائم ہوئے تمام پارٹیاں بر سر اقتدار تھیں لیکن جمہوری وطن پارٹی واحد سیاسی جماعتتھی جو حزب اختلاف میں تھی۔ 1993 میں جمہوری وطن پارٹی نے ایک مرتبہ پھر اپوزیشن برقرار رکھی۔ 1997 کے انتخابات میں حصہ لینے سے نواب صاحب ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

2005-06 میں بگٹی صاحب اور حکومت کے تعلقات کشیدہ ہوئے۔ بگٹی صاحب سوئی اور ڈیرہ بگٹی کے سرکاری منصوبوں میں اہل علاقہ کی شمولیت چاہتےتھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اداروں میں نوکریاں مقامی افراد کو ملیں۔ فوجی چھاؤنی ڈیرہ بگٹی اور سوئی سے ختم ہو۔ ایک سال کے دوران انہوں نے کئی بار مرکزی حکومت کے نمائندوں سے مذاکرات کیے جو ناکام رہے۔ بلوچستان کے لئے ترقیاتی منصوبوں پر بگٹی قبیلے کو ویسے ہی تحفظات تھے جیسے سی پیک پر پختونخوا کو تحفظات تھے مگر سی پیک کے وقت جمہوری حکومت موجود تھی تو یہ تحفظات اے پی سی بلا کر بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی مگر 2006 میں مکا لہرانے والا کمانڈو موجود تھا اور وہ ہر مسئلہ بذریعہ طاقت حل کرنا چاہتا تھا۔

اس کشمکش کے دوران ڈاکٹر شازیہ کاواقعہ پیش آیا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ڈاکٹر شازیہ پاکستان پیٹرولیم لیمٹڈ میں ملازم تھیں۔ ادارے کی سکیورٹی فوج کے حوالے تھے۔ ڈاکٹر شازیہ کے مطابق پاک آرمی کے کیپٹن حماد نے اُس کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ پہلا نہیں تھا مگر اس نے نواب صاحب کو مزید غصہ دلایا۔ انہوں نے پیش آنے والے تمام واقعات کی انکوائری کی مطالبہ کیا مگر رد ہوا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ کیپٹن حماد اور شازیہ کیس میں جوڈیشل کمیشن بننے سے پہلے ہی پرویز مشرف نے وردی میں آ کر ٹی وی پر کہا کہ ’کیپٹن حماد از ٹو ہنڈرڈپرسنٹ انوسنٹ‘۔ جنوری 2005 میں ڈاکٹر شازیہ کیس نے پورے بلوچستان میں آگ لگا دی کیونکہ بلوچ معاشرے میں خواتین کو ایک بڑا مقام حاصل ہے۔ اس واقعہ کے بعد ڈیرہ بگٹی میں حالات کشیدہ ہو گئے۔ 7 جنوری 2005 کو بگٹیوں نے گیس پائپ لائن اُڑا ادی جس سے پاکستان میں گیس کی سپلائی معطّل ہو گئی۔ 7 جنوری 2005 سے 11 جنوری تک راکٹ حملوں میں پاکستان پیٹرول لمیٹڈ، پی پی ایل کو 230 ملین روپے جب کہ گیس سپلائی معطّل ہونے سے پاکستان کو 120 ملین روپیہ کا یومیہ نقصان ہوا تھا۔ 15 جنوری کو انہوں نے کہا کہ بلوچستان فتح کرنے کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ 18 فروری کو نواب اکبر بگٹی نے کہا کہ حکومت مظاہروں سے نہیں بم دھماکوں کو سنتی ہے۔ 10 جنوری کو انہوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر شازیہ کو کیپٹن حماد کی قیادت میں 3 اہلکاروں نے رات بھر زیادتی کا نشانہ بنایا لیکن کیس نہیں دب سکا۔ بلوچ اپنی سرزمین و علاقے میں اس قسم کے شرمناک معاملات کو کسی طور برداشت نہیں کریں گے۔

دوسری جانب بلوچ سرمچاروں نے بھی ڈاڈائے بلوچ کو اکیلا نہیں چھوڑا۔ 13 جنوری کو بلوچ لبریشن فرنٹ کے ترجمان نے کہا: دھمکیوں سے مرعوب ہونے والے نہیں، ہم ہٹ کریں گے تو مشرف کو سنبھلنے کا بھی موقع نہیں ملے گا۔ تیار بیٹھے ہیں، جنرل پرویز وار کر کے دکھائیں ،غوری اور شاہین سنبھال کے رکھیں۔ برے وقت میں کام آئیں گے۔

پرویز مشرف پر بلوچستان میں حملہ ہوا۔ الزام بگٹی صاحب پر لگا۔ ان کے گھر پر بمباری ہوئی۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ 2004 میں کراچی میں کور کمانڈر کے قافلے پر حملہ ہوا تھا اور مشرف پر تین حملے پنجاب میں ہوئے تھے، مگر کیا اس وجہ سے پورے کراچی اور پنجاب کو تہس نہس کر دیا گیا؟ کیا یہاں اس بات پر کوئی فوجی آپریشن شروع کیا گیا؟  بالکل بھی نہیں۔ پھر کیوں مشرف پر ایک حملے کے الزام میں بلوچوں پر دشمنوں کی طرح بمباری کی گئی؟

17 مارچ کو سانحہ ڈیرہ بگٹی پیش آیا۔ ڈیرہ بگٹی میں گھروں پر بمباری کی گئی جس میں 70 سے زائد افراد شہید ہوئے۔ گولے ڈیرہ بگٹی کی آبادی اور نواب صاحب کے قلعے میں گرے۔ ان کے پرسنل سیکرٹری رفیق بگٹی زخمی اور دو افراد شہید ہو گئے۔ چودھری شجاعت حسین اپنی کتاب ”سچ تو یہ ہے“ میں لکھتے ہیں: ”جن دنوں نواب اکبر بگٹی کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے ایک بار ہم ان کے گھر گئے۔ میرے ساتھ مشاہد حسین سید، مونس الٰہی اور خاتون صحافی نسیم زہرا بھی تھے۔ ہم نے ان کے گھر میں ایک بڑا سا گڑھا دیکھا جس کے بارے میں نواب صاحب کا کہنا تھا کہ یہ فوجی بمباری کی وجہ سے بنا ہے جس میں ان کی پوتی بھی زخمی ہو گئی تھی۔“ وہ بی بی سی کو انٹرویو د ے رہے تھے کہ گولے کی آواز آئی۔ نواب صاحب نے کہا ہم پر جنگ مسلّط کر دی گئی ہے۔

اس کے بعد نواب صاحب نے 80 سال کی عمر میں پہاڑوں کا رخ کیا۔ بالآخر پاکستانی فوج نے شہری علاقوں پر بمباری کا فیصلہ کیا اور نواب صاحب کے قلعہ پر گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بمباری کی گئی۔ نواب بگٹی نے شہدائے ڈیرہ بگٹی کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ 17 مارچ 2005 دراصل بلوچ قوم کی قربانیوں کی تاریخ کے اندر ایک نئے باب کا اضافہ اور قومی حقوق کی جدوجہد کے مشعل کے اندر ایک چنگاری کی مانند ہے جس نے قومی بقا کے گرد اندھیروں کے اندر روشنی کی کرن پیدا کر دی جس سے آہنگ کو نیا ولولہ ملے گا۔ دوسری جانب بلوچ سیاسی، سماجی تمام مکتب فکر کے لوگ نواب صاحب کے لئے دعا گو تھے اور سر مچاروں نے اس کٹھن موقع پر نواب صاحب کی حفاظت کا ذمہ لیا اور نواب صاحب کو ڈاڈا کے خطاب سے نوازا۔ حالات تیزی سے بدل رہے تھے۔ کوہلو اور ڈیرہ بگٹی کے گرد جنگ شدت سے جاری تھی۔ شہید نواب اکبر بگٹی، بلوچ فوج کی قیادت سنبھالے ہوئے تھے۔ شہری علاقوں پربلوچ سرمچاروں کی کارروائیوں میں شدت آئی۔

13 اکتوبر 2005 نواب صاحب نے بیان میں کہا کہ جنرل اپنے وعدے پر قائم رہے۔ بلوچوں کو زندان اور غم توقع سے بڑھ کر ملا۔ آخر میں موت جو آزادی دیتی ہے۔ یہ تمام مجموعہ ہے جو بلوچ توقع کر سکتا ہے۔ بلوچستان کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ بلوچستان کے لئے کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں گریز نہیں کریں گے۔

نواب صاحب نے پیراں سالی میں مزاحمت کی اور بالآخر 26 اگست 2006 کو تراتانی کوہ سلیمانی میں ان پر شدید حملہ کیا گیا اور کہا جاتا ہے کہ اُن پر کلسٹر بموں سے حملہ کیا گیا۔ اس طرح انہوں نے اپنے کئی سرمچاروں کے ساتھ جام شہادت نوش کیا اور بلوچ تاریخ میں اپنا نام رقم کر گئے۔

نواب صاحب کی وفات سے اگلے روز معروف سیاستدان جاوید ہاشمی نے جیل سے اپنی بیٹی کو خط لکھا، ’’ایک اسی سالہ بوڑھے کو گرفتار کرنا اتنا مشکل کام نہ تھا، مگر حکمران تو اسے ڈاکٹر شازیہ کی عصمت دری کرنے والے افسر پر تنقید کا مزہ چکھانے کا فیصلہ کر چکے تھے‘‘۔



وفاقی وزیر، وزیر مملکت، گورنر اور وزیر اعلیٰ بلوچستان رہنے والا سیاستدان، پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ دینے والا شخص اگر بلوچستان کے استحصال اور اس کے حقوق کا رونا روتے ہوئے 80 سال کی عمر میں اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر مزاحمت کے لئے کسی پہاڑی پر جا بستا ہے تو میرا ضمیر مجھے یہ سوچنے پر مجبور ضرور کرے گا کہ پاکستان کے حق میں ووٹ دینے والا کوہلو کے غار میں کیوں مارا گیا؟

کہتے ہیں کہ جب آپ کے پاس واحد اوزار ہتھوڑا ہو تو پھر ہر مسئلہ کیل نظر آتا ہے۔ بگٹی قبیلے کے تحفظات کو ترقی کی مخالفت بنا کر پیش کیا گیا اور مزید الزام یہ لگایا گیا کہ بلوچستان میں مشرف کے قافلے پر راکٹ فائر کیے گئے جب کہ اکبر بگٹی ایسی کسی بھی سرگرمی سے لاتعلقی کا اظہار کرتے رہے۔ مگر بلوچستان میں مسئلہ کیل نظر آ رہا تھا تو دو راکٹ فائر ہونے پر جس کے بارے میں کچھ پتہ بھی نہیں تھا کہ کس نے فائر کیے، جس میں کوئی ہلاکت بھی نہیں ہوئی تھی پورے کوہلو سوئی اور ڈیرہ بگٹی کو آگ لگا دی گئی۔ پھر بلوچستان کو وہاں سے ہٹ کرنے کی کوشش کی گئی جہاں سے ان کو پتا بھی نہ لگے۔ اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد ان کے پوتے براہمداغ نے علیحدگی پسندی کا راستہ اختیار کیا۔ البتہ شاہ زین اور دیگر بدستور پاکستان کے حامی رہے۔ نوے کی دہائی میں جو علیحدگی پسندی دم توڑ چکی تھی اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد سے وہ 47 سے لے کر اب تک سب سے زیادہ شدت سے دوبارہ ابھری اور لاکھ دعووں کے باوجود صوبے کے حالات پر امن نہیں ہیں۔
مزیدخبریں