20 سالوں میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا ہے انہوں نے حالات کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کر لیا ہے ،پاکستانی میڈیا پر بہت سے طالبان کے خود ساختہ ترجمان موجود ہیں جو افغانستان پر تو طالبان کی حکومت چاہتے ہیں مگر پاکستان میں جمہوریت چاہتے ہیں۔ ہی وجہ ہے کہ افغانستان کی عوام ہمارے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتی کہ آپ ہمیں تو پتھروں کے دور میں واپس دھکیل رہے ہیں مگر اپنے ملک میں جدید مغربی طرز جمہوریت چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا کھلا تضاد ہے جو ہمارے خود ساختہ طالبانی ترجمانوں میں پایا جاتا ہے۔
طالبان کے ترجمان کی گزشتہ روز ہونے والی پریس کانفرنس میں انہوں نے خواتین کو بھی سرکاری دفاتر میں واپسی سے روک دیا ہے اور حالات بہتر ہونے کا انتظار کرنے کا کہا ہے، اسی دروان ان کو تنخواہیں ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور ملک میں موجود تمام گلوکاروں اور موسیقاروں کو اپنے پیشے پر نظر ثانی کا بھی کہا گیا ہے۔ ابھی تو 31 اگست کے بعد مزید اقدامات ہونے ہیں لہذا یہ سوچنا کہ طالبان بدل گئے ہیں، وہ اپنے مخالفین کے لیے عام معافی کا اعلان کر رہے ہیں، پولیو مہم دوبارہ شروع کر رہے ہیں یہ سب دکھاوے کی باتیں لگتی ہیں۔
ابھی میدان میں شمالی اتحاد موجود ہے، وہ طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں تاہم ان کے قائد احمد مسعود کا کہنا ہے کہ ہم طالبان سے جنگ کے لیے بھی تیار ہیں۔ یو ٹیوب پر کچھ ویڈیوز چل رہی ہیں جس میں دیکھایا گیا ہے کہ افغانستان کے مختلف غیر آباد علاقوں میں کچھ جگہ پر تہہ خانے سے بہت بڑی تعداد میں اسلحہ اور امریکی ڈالر برآمد ہو رہے ہیں جو شمالی اتحاد اور کچھ طالبان کے ہاتھ لگے ہیں۔ ذرائع کے مطابق امریکی فوجیوں نے جان بوجھ کر ہتھیاروں اور ڈالروں کے یہ ذخائر وہاں چھوڑے ہیں تاکہ وقت آنے ان عسکری گروپوں میں تقسیم کیے جائیں جو انکے مفادات کا تحفظ کریں گے۔
بھارتی میڈیا میں تو کھل کر شمالی اتحاد کی حمایت کی جا رہی ہے اور سابقہ میجر اور مجودہ اینکر پرسن گورو آریا اپنی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ شمالی اتحاد کو کھل کر پیسہ اور ہتھیار دیے جائیں۔ ادھر ہماری ہیت مقتدرہ حسب حال طالبان کی حمایت کر رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور انکے بدترین سیاسی مخالف مولانا فضل الرحمان دونوں ایک پیج پر ہیں۔ وزیر اعظم نے طالبان کی فتح کو غلامی کی زنجیروں کو توڑ دینا قرار دیا ہے تو مولانا فضل الرحمان نے طالبان کو مبارکباد کا پیغام بھیجا ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت خاموشی ہے۔ ادھر کابل میں افغان عوام کی بہت بڑی تعداد ملک سے باہر نکل رہی ہے ،افغاستان کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کے ساتھ اپنی ون ڈے میچوں کی سیریز منسوخ کر دی اور کہا ہے کہ ہمارے کھلاڑی ذہنی طور پر اپ سیٹ ہیں۔
ہمارے وہ دانشور جو طالبان کے آنے پر خوش ہیں وہ افغان عوام سے زیادہ اپنے ملک کے حالات کو نہیں جانتے، اگر کسی ملک میں عوام کی من پسند حکومت آجائے تو عوام انکو خوش آمدید کہتے ہیں اس ملک سے بھاگنے منصوبہ بندی نہیں کرتے۔ افغان حکومت کے اربوں ڈالر امریکہ اور یورپ کے بینکوں میں پڑے جن کو منجمد کر دیا گیا۔ طالبان حکومت ان کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں تاہم وہ یہ بھول رہے ہیں کہ وہ الیکشن جیت کر اقتدار میں نہیں آئے بلکہ بندوقوں کے بل بوتے پر آئے ہیں۔ افغانی فوجیوں کی بڑی تعداد شمالی اتحاد کے ساتھ مل رہی ہے جن کی ویڈیو یو ٹیوب پر چل رہی ہیں۔ تمام مسلم ممالک افغان عوام کے اس انسانی المیہ پر خاموش ہیں ۔ برطانیہ کی حکومت نے مہاجرین کے لیے رقم مختص کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم بدنصیب افغان عوام ایک جو صدیوں سے انسانی المیوں سے دوچار ہوتی آرہی ہے جو ٹھیک 20 برسوں کے بعد ایک بار پھر انسانی المیہ سے گزر رہی ہے خدا جانے انکی آزمائش کب ختم ہو گئی۔