ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مرتب کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 14 جون سے اب تک سیلاب اور بارشوں کے دوران پیش آنے والے حادثات کی وجہ سے سندھ میں سب سے زیادہ اموات ہوئی اور صوبے میں 306 افراد جان کی بازی ہار گئے۔
این ڈی ایم اے کے مطابق اسی عرصے کے دوران بلوچستان میں 234 اموات ہوئیں جب کہ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں بالترتیب 185 اور 165 شہری لقمہ اجل بنے۔
یشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں 37 افراد جاں بحق ہوئے، گلگت بلتستان ریجن میں رواں مون سون بارشوں کے دوران 9 افراد موت کے منہ میں چلے گئے جب کہ اسی عرصے میں اسلام آباد میں ایک شہری کے جاں بحق ہونے کی اطلاع ملی۔
این ڈی ایم اے کے مطابق پاکستان میں اگست میں 166.8 ملی میٹر بارش ہوئی جو 48 ملی میٹر کی معمول کی اوسط بارش کے مقابلے میں 241 فیصد زیادہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان بارشوں سے سندھ اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ہیں جہاں مون سون بارشوں میں بالترتیب 784 فیصد اور 496 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
ان ریکارڈ ساز تباہ کن بارشوں کے نتیجے میں پورے ملک میں، خاص طور پر پاکستان کے جنوبی حصے میں سیلابی صورتحال درپیش ہے جب کہ اس وقت سندھ کے 23 اضلاع کو زیر آب ہونے کی وجہ سے آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے۔
فاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے کہا کہ حالیہ مون سون سیزن کے دوران ہونے والی تباہ کن بارشوں اور سیلاب سے 913 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ 3 کروڑ شہری بے گھر ہوگئے ہیں، اقوام متحدہ سے امداد کی اپیل کریں گے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیری رحمٰن نے کہا کہ حالیہ دنوں میں ملک بھر میں ریکارڈ بارشیں ہوئیں جن کی تباہ کاریاں بڑھتی جارہی ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پورے ملک میں ہی بہت زیادہ بارشیں ہوئیں لیکن سندھ میں سب سے زیادہ بارش ہوئی، بارش کے حالیہ اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب کی اس وقت جو صورتحال اور تیزی ہے وہ ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی، اس سیلاب کے باعث سندھ، بلوچستان اور سوات میں تباہی کے مناظر ہیں، حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کی ہماری زندگی میں مثال نہیں ملتی۔
ان کا کہنا تھا کہ حالیہ سیلاب کے دوران علاقوں میں موجود پانی 2010 میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے بھی زیادہ ہے، تواتر کے ساتھ بہت بڑی مقدار میں سیلاب کے باعث صورتحال خراب ہے۔
وزیر موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ حالیہ مون سون موسم جیسا سسٹم بھی ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھا، ہم 8 ویں اسپیل سے گزر رہے ہیں جبکہ اس سسٹم کے تحت سندھ اور بلوچستان میں شدید بارشیں ہو رہی ہیں۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ بارش سے 23 اضلاع آفت زدہ قرار دیے گئے ہیں، قومی ہنگامی صورتحال کا اعلان کردیا گیا ہے، سندھ کے 30 اضلاع مکمل طور پر ڈوبے ہوئے ہیں، صورتحال بہت سنگین ہے، اسی وجہ سے وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے یورپ کا دورہ ملتوی کیا، اس کے ساتھ اطلاعات مل رہی ہیں کہ وزیر اعظم نے بھی اپنا دورہ ملتوی کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بارش کے باعث کئی علاقوں سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے، ہم رابطوں کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2010 کے سیلاب میں دریائے سندھ کے ایک طرف پانی تھا اور پانی ریور سسٹم میں تھا، جبکہ اس مرتبہ دونوں اطراف میں پانی موجود ہے اور ریور سسٹم کے باہر بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تقریباً پورا جنوبی پاکستان پانی میں ڈوبا ہوا ہے، یہ ہمارے لیے بہت بڑا بحران ہے، اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمیں اپنے تمام وسائل کو استعمال کر رہے ہیں، پاک فوج متحرک ہے، این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم ایز سمیت تمام متعلقہ ادارے سرگرم عمل ہیں جبکہ امدادی اشیا کی تقسیم کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور صوبائی حکام کے ذریعے کی جارہی ہے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ سیلاب کے باعث 3 کروڑ لوگ بے گھر ہیں، متعلقہ ادارے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگا رہے ہیں، این ڈی ایم اے اس وقت امدادی ضروریات کا جائزہ لے رہا ہے، ہم اقوام متحدہ سے امداد کے لیے انٹرنیشنل فلیش اپیل بھی کریں گے، اس بڑے بحران نے نمٹنا کسی ایک ملک یا صوبے کے بس کی بات نہیں ہے۔
شیری رحمٰن نے کہا کہ یہ مونسٹر مون سون ہے، یہ سانس نہیں لینے دے رہا، ریلیف اقدامات کا موقع نہیں دے رہا، متاثرین کی بحالی کا وقت نہیں مل رہا، ہر روز نئی ہلاکتوں اور تباہی کی خبریں مل رہی ہیں۔
وزیر موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ ہمیں ہر طرح کی امداد کی ضرورت ہے، شہری بھی جو امداد کرسکتے ہیں وہ کریں، یہ ایک قومی ایمرجنسی ہے اور ہمیں اس سے اسی طرح سے نمٹنا ہوگا۔
حکومت کی جانب سے ابتدائی طور پر فوری ضروریات کی نشاندہی کے لیے تیار کی گئی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرہ افراد کو فوری ریلیف فراہم کرنے کے لیے کم از کم 72ارب 36 کروڑ روپے درکار ہیں۔
ابتدائی نیڈز ایسسمنٹ رپورٹ کے مطابق خوراک اور فوری نقد امداد کی فراہمی کے لیے حکومت کو 7 ارب 33 کروڑ روپے، نان فوڈ آئٹمز (این ایف آئی) کے لیے اسے 8 ارب 7 کروڑ 13 لاکھ روپے کی ضرورت ہے جب کہ طبی امداد سے متعلقہ اخراجات کے لیے 1 ارب 6 کروڑ 27 روپے درکار ہیں۔
حکومت کو بارشوں سے آنے والے سیلاب کے نتیجے میں مویشیوں کے نقصان کی تلافی کے لیے بھی 9 ارب 24 لاکھ روپے درکار ہیں جب کہ ابتدائی تخمینہ کے مطابق امدادی سرگرمیوں کے لیے درکار مشینری اور متعلقہ آلات کی خریداری پر 4 ارب 6 کروڑ 46 لاکھ روپے لاگت آئے گی۔
دوسری جانب، سیلاب سے تباہ ہونے والے کم از کم 82 ہزار مکانات کی تعمیر نو کے لیے فی گھر 5 لاکھ روپے کے حساب سے بھی 41 ارب روپے کی لاگت آئے گی۔
دوسری جانب، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے قومی جذبے کو ابھارا اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سمیت قوم پر زور دیا کہ وہ آگے آئیں اور اس مشکل صورتحال میں اپنے ہم وطنوں کی مدد کریں۔
اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ پوری قوم خاص طور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے فراخ دلی کے ساتھ عطیات دینے چاہییں کیونکہ وسیع پیمانے پر ہونے والی تباہی کے بعد متاثرین کی بحالی کے لیے بھاری رقم کی ضرورت ہوگی۔
مریم اورنگزیب نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر متاثرین کی مدد کے لیے انتھک کوششیں کر رہی ہے اور تمام وسائل کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے اور امدادی سرگرمیوں کو تیز تر کرنے کے لیے عوامی تعاون کی ضرورت ہے۔