خیال رہے کہ صوبائی حکومت نے طلبہ یونین کی بحالی کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ۔
طلبہ یونین کی بحالی کے حوالے سے ذرائع کے مطابق صوبے کے پبلک سیکٹر اور پرائیویٹ سیکٹر کی یونیورسٹیرز سے تجاویز اور سفارشات طلب کی گئی تھیں کہ طلبہ یونینز بحال ہونی چاہیے کہ نہیں۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ پبلک سیکٹر کی سات یونیورسٹیوں، جو کہ پشاور سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں ہیں، جبکہ دو پرائیویٹ یونیورسٹیوں، جو پشاور میں ہیں، کی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ یونیز کی بحالی کی مخالفت کی گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ وائس چانسلرز کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ طلبہ یونینز کی بحالی سے یونیورسٹیوں میں مزید مسائل پیدا ہوں گے، یونیورسٹی میں اب بھی بعض طلبہ تنظیموں کے طالب علم مختلف الزامات میں پولیس کو مطلوب ہیں۔
اس سے قبل خیبر پختونخوا کے سابق گورنرز نے بھی طلبہ یونین کی بحالی کی مخالفت کی تھی۔
واضح رہے کہ طلبہ یونینز کا سیاست میں اہم کردار ہے تاہم طلبہ یونینز کے جھگڑوں اور پیدا ہونے والی صورتحال پر سابق صدرجنرل ضیاء الحق نے اس پر پابندی عائدکی تھی جس کی نو فروری کو 35 سال مکمل ہو جائیں گے تاہم سرکاری حکام نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے جبکہ پنجاب، سندھ، بلوچستان یونیورسٹیز کی جانب سے بھی تاحال تجاویز ارسال نہیں کی گئی ہیں۔