بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں پیشہ ورانہ صحافیوں کی جانوں کو درپیش خطرات

2005سے 2021 کے دوران 45 صحافی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نباتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور رواں سال میں بھی بلوچستان کے ضلع مستونگ اور خضدار سے تعلق رکھنے والے 2 صحافی مارےجاچکےہیں

08:01 PM, 26 Dec, 2024

گہرام اسلم بلوچ

بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں پیشہ ورانہ صحافیوں کی  جان کو درپیش خطرات کے علاوہ اور بہت سی مشکلات کا بھی سامنا ہے، ایک تحقیق کے مطابق 2005سے 2021 کے دوران 45 صحافی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور رواں سال میں بھی بلوچستان کے ضلع مستونگ اور خضدار سے تعلق رکھنے والے 2 صحافی مارےجاچکےہیں۔

یہ اعداد و شمار ایک مصنف عابد میر کی کتاب”بلوچستان میں جدید ذرئع ابلاغ“ سےلئےگئے ہیں۔ مقامی صحافی مقبول ناصر کا کہناہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں متحارب فریقین کے درمیان صحافتی توازن برقرار رکھنا مشکل اور خطرناک ہے ایک رپورٹر کو اپنی تحفظ کو یقینی بنانے کیساتھ لیے عوام کو بروقت معلومات بھی دینی ہوتی  ہیں۔

صحافی بلوچستان میں پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دینے کے دوران دو بیانیوں کے درمیان پھنس جاتا ہے، کسی ایک فریق کا مؤقف نہ دینا کسی بھی صحافی کے  لئے خطرے سے خالی  نہیں ہوتا ہےتاہم صحافی کا کام خبر دینا نہ کہ کسی کو خوش کرنا ہوتا ہے۔

”سما ٹی وی“سے وابستہ مقامی صحافی مقبول نے بتایا کہ” تربت تعلیمی چوک پر ایک واقع ہوا تو مجھے ہیڈ آفس سے رپورٹ کرنے کا کہا گیا۔“جب میں کوریج کے جارہا تھا تو موقع پر قانون نافذ کرنیوالے نے مجھے جانے کی اجازت نہیں دی کیونکہ حالات کشیدہ تھے، مگر میں نے ہر حال میں یہ سٹوری کور  کرنا تھا، میں مجبوراً کسی بجلی  کے ایک کھمبے پر چڑھ گیا اور ویڈیوبنا لی۔ 

بلوچستان کے ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والی اور اسلام آباد میں مقیم خاتون جرنلسٹ رخشندہ تاج کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں صحافیوں کو بہت سے خطرات درپیش ہیں۔ایسے براہ راست جنگ زدہ علاقوں میں صحافیوں  پر مسلح گروہوں، حکومتوں یا انتہا پسند تنظیموں کے حملے معمول کی بات ہیں۔ جھڑپوں کےدوران صحافیوں کو اغوا کیے جانے کے علاوہ اُن کی جان کو بھی خطرات لاحق ہو جاتے  ہیں۔ کوئی بھی سٹوری انسانی زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں ہوتی اور یہی صحافت کا پہلا اصول ہے۔ رپورٹنگ کرتے ہوئے صحافیوں کو احتیاط برتنی ہوگی۔ اُنکے کے مطابق حکومتیں اور مسلح گروہوں کی طرف سے صحافیوں پر دباؤ ڈال کر صحافیوں کوفریقین کے جنگی پروپیگنڈے کا حصہ بننےپرمجبور کیا جاتاہے۔ انہوں نےمزید بتایا کہ جنگ زدہ علاقوں میں اکثر صحافیوں کو قانونی تحفظ حاصل نہیں ہوتا اور بعض اوقات صحافیوں کو حکومتوں کی طرف سے بھی سخت دباؤ اور سینسرشپ کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ صحافیوں کےآلات اور  معلومات کو ہیک کر کے انہیں نقصان پہنچایا جا سکتا ہے اور صحافیوں کو جنگی حالات میں کام کرنے کے لیے خصوصی تربیت حاصل  کرنا چاہئے جس  کیلئے میڈیا کے اداروں کو ذمے داری اُٹھانا ہوگی۔

ہنگامی حالت یا جنگ کے دوران رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک صحافی کو کیا احتیاطی تدابیر اپنانا چاہئیں؟ صدر شعبہ ابلاغیات جامعہ بلوچستان ”ڈاکٹر ببرک نیاز“نے تنازعات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ صحافی کے لئے جنگی محاذ سے رپورٹنگ  کے واسطےتمام فریقین کےبارے میں جاننا ضروری ہےکہ یہ فریقین کون ہیں اور انکے مقاصد کیا، ان چیزوں کا ادراک کرنا صحافی کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ آپ کو یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آپ کی ”ریڈ لائنز“ کہاں تک ہیں، کیونکہ اگر آپ اپنی حدود سے بے خبر ہیں تو آپ اس تنازع کا شکار ہو سکتے ہیں۔

بلوچستان میں پچاس سے زائد صحافی اسی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھوچُکے ہیں کہ وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ تنازعہ کس فریقین کے درمیان ہے اور کون سے مسائل ہیں۔ ان صحافیوں نے ان مسائل پر رپورٹنگ کی اور نتیجتاً وہ خود ہی نشانہ بن گئے۔ اس لحاظ سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کو تنازعے کے بارے میں پوری آگاہی حاصل ہو، آپ کو معلوم ہو کہ جنگ ذدہ علاقے کے مسائل کیا ہیں اور یہ کتنے حساس ہیں۔  ساتھ ہی آپ کو اپنی ”ریڈ لائن“ کا پتہ ہونا چاہیے۔اگر آپ کو یہ علم نہیں کہ آپ کی حدود کہاں تک ہیں اور آپ انجانے میں انہیں عبور کر جاتے ہیں، تو آپ جنگی زون میں صحافتی عمل کے دوران نشانہ بن سکتے ہیں۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ صحافتی اخلاقیات کے مطابق کوئی بھی چیز اتنی اہم نہیں ہو سکتی کہ آپ کی جان سے زیادہ قیمتی ہو۔ آپ کی جان کی قیمت زیادہ ہے۔

مصنف عابد میر کے مرتب کردہ کتاب”بلوچستان میں جدید ذرئع ابلاغ“ کے مطابق 2005 سے 2021 کےدوران 45 صحافی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے مارے جا چکے ہیں۔ جبکہ رواں سال میں بھی بلوچستان کے ضلع مستونگ اور خضدار سے تعلق رکھنے والے 2 صحافی بھی مارے جا چکے ہیں۔ بلوچستان صحافیوں کے لئے سب سے خطرناک ترین صوبہ ہے جبکہ بلوچستان کے ضلع خضدار اور تربت کے صحافی سب سے زیادہ ہدف بنائے جا چکے ہیں۔

سابق جنرل سیکرٹری اسماعیل عمر کے مطابق اس وقت گودار پریس کلب کی تعداد 19 ہے اور تربت پریس کلب کی تعداد 7 کے قریب ہیں، فیمیل خاتون فیلڈ کی اس حوالے سے تربیلڈ میں نہ آنا اوردرپیش مشکلات کے حوالے سے تربت سے تعلق رکھنے والے صحافی اسد بلوچ کا کہنا ہے کہ مکران میں فیلڈ ورکنگ خواتین صحافیوں کی عدم موجودگی کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ نیم قبائلی سماج میں خواتین کا باہر نکل کر رپورٹنگ کرنا معیوب سمجھا جانا ہے۔ یہ سماجی دباؤ اور  روایتی قدریں خواتین  کوصحافت کے میدان میں  آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔ اسد بتاتے ہیں کہ اگر کوئی خاتون صحافی ان سماجی بندشوں کی پاسداری نہ کرے تو اُنکی جان بھی جاسکتی ہے۔ دوسری اہم وجہ میڈیا اداروں کی ناکامی ہےجو نہ تو خواتین صحافیوں کو سفر ی اخراجات یا سہولت فراہم کرتے ہیں اور نہ ہی فیلڈ ورکنگ صحافیوں کو مناسب تنخواہ دیتےہیں۔ ایسے حالات میں خواتین کے لیے گزارہ کرنا اور اس پیشے کو اپنانا مزید مشکل ہوجاتا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر تربت اور دیگرایسے علاقوں میں خواتین صحافیوں  کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

 بہرام بلوچ اور اسد بلوچ گودار اور تربت میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد بلوچستان میں جاری  معاملات کو رپورٹ کرتے آرہے ہیں  ان کا کہنا ہے کہ تربت اور گوادر جیسےحساس علاقوں میں صحافت کرنا نہایت مشکل اور چیلنجنگ ہے، جہاں انسر جنسنگ موجودگی صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ یہاں ہر قدم نہایت احتیاط کے ساتھاٹھانا پڑتا ہے، کیونکہ معمولی سی غفلت یالاپرواہی بھی کسی بڑے مسئلے کا سبب بن سکتی ہے۔ مقامی سطح پر سب سے مشکل مرحلہ کسی رپورٹ کی تصدیق کرانا ہوتا ہے۔مقامی انتظامیہ، سکیورٹی ادارے یا دیگر متعلقہ حکام رپورٹ کی تصدیق کے لیے تعاون نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ، فیلڈ میں جا کرحساس موضوعات پر رپورٹنگ کی اجازت بھی شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔ ان حالات میں صحافیوں کے لیے اپنی ذمہ داری نبھانا ایک انتہائی مشکل اور خطرناک کام بن جاتا ہے،خاص طور پر تربت جیسے علاقوں میں جہاں صورتحال مزید نازک ہے۔ مقامی سکیورٹی فورسز کی طرف سے صحافیوں کو تحفظ نہ دینا اور ان پر ہونیوالے حملوں کی مؤثر تحقیقات نہ ہونا صحافیوں پر حملہ آور ہونے والی قووتوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔

مزیدخبریں