ان کا کہنا تھا کہ ریحام خان نے اپنی کتاب کو الیکشن 2018ء سے صرف چند ہفتے پہلے شائع کرایا تاکہ عوام پر اس کا اثر پڑ سکے۔ یہ کتاب لوگوں نے پڑھی لیکن اس میں جو باتیں بھی لکھی گئیں، ان پر یقین کرنے کیلئے ٹھوس شواہد کا ہونا ضروری تھا جسے آج تک پیش نہیں کیا گیا۔
منصور علی خان نے کہا کہ حال ہی میں جب محسن بیگ نے ایک پروگرام کے دوران اس کتاب کا صرف حوالہ ہی دیا تھا کہ ان کیخلاف بڑا مسئلہ کھڑا کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اب جو اگلی کتاب لکھی جا رہی ہے، اس کے لکھاری عمران خان کے بڑے ہی قریبی ساتھی عون چودھری ہیں جو کبھی ان کے ساتھ سائے کی طرح رہتے تھے۔ عمران خان کے پاس جانے کیلئے لوگ پہلے اس شخص کے پاس جاتے تھے۔ اگر وہ ناں کر دیتا تو کوئی عمران خان سے مل تک نہیں سکتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ عون چودھری اس وقت سے عمران خان کیساتھ تھے، جب نہ تو ریحام خان تھیں اور نہ ہی بشریٰ بی بی۔ لیکن اس کے بعد وقت نے پلٹا کھایا۔ پہلے انھیں اسلام آباد سے نکال کر لاہور میں شفٹ کیا گیا۔ پنجاب حکومت میں عہدہ دیا گیا لیکن جلد ہی وہاں سے بھی فارغ کر دیا گیا۔
منصور علی خان نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ عون چودھری کا شمار ایسی شخصیات میں ہوتا ہے کہ جو عمران خان کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔ دن رات اس شخص نے اپنی فیملی کو سائیڈ لائن کرکے عمران خان کا ساتھ دیا اور قربانیاں دے کر ان کا ساتھ نبھایا۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ان کی کتاب میں وہ واقعہ بھی ڈسکس ہوگا جس میں عون چودھری کو اچانک بتایا گیا صبح آپ نے حلف برداری کی تقریب میں نہیں آنا ہے۔ تاہم اس کتاب میں وہ کیا لکھ رہے ہیں، اس کا تو ان کو ہی علم ہوگا لیکن ایک بات ذہن نشین رہے کہ جس دن یہ چھپ کر مارکیٹ میں آ گئی تو ایک طوفان کھڑا ہو جائے گا۔