ملک میں ایک درمیانہ سفید پوش طبقہ ہوا کرتا تھا وہ اب غربت کے لکیر پر کھڑا ہے جبکہ غریب مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ نوجوانوں کیلیے روزگار کے وسائل ناپید ہیں جس کی وجہ سے وہ ناامیدی کا شکار ہیں۔ ایک عرصے سے جمہوری حکومتوں اور سیاستدانوں پر خائن ہونے کے الزامات نے ملک کی ساکھ کے بخیے ہی ادھیڑ دیئے ہیں۔
غور طلب بات ہے کہ ہمارے پیارے پاکستان میں ان سیاستدانوں کے احتساب کا رواج رہا ہے جو ریاست کی منہ زور اسٹیبلشمنٹ کو ناپسند ہوتے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو 28 سال تک الزامات کی سیاست کرنے والوں سے مزاحمت کرتے کرتے اپنے لہو سے نہا کر اپنی بے گناہی ثابت کرنی پڑی تھی مگر ان عناصر کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا جو ان کی عوامی سیاست کو قتل کرنے کیلئے عدالتی نظام کا شرمناک استعمال کر رہے تھے۔ وہ این آر او کو ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے سے بھی برا اقدام سمجھ رہے تھے۔ آپ بے شک پیپلز پارٹی کی قیادت کا بے رحمانہ احتساب کریں مگر احتساب میں انصاف نام کی کوئی چیز تو نظر آئے۔
2008 کے انتخابات کے بعد اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد انکشاف کیا کہ ملک کا خزانہ خالی ہے اور وہ اپنی پارٹی کے فیصلے کے مطابق حکومت سے الگ ہو گئے۔ اس کے باوجود صدر آصف علی زرداری کی زیر قیادت حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں سو فیصد اضافہ کیا، ماضی میں برطرف کیے گئے سرکاری ملازمین کو واجبات کے ساتھ بحال کیا۔ غریب، بیوہ اور مستحق خواتین کی مالی اعانت کیلیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا۔ سرکاری صنعتوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کیلیے بے نظیر اسٹاک کے فنڈ میں 25 ارب روپے منتقل کیے۔ آغاز حقوق بلوچستان پروگرام کے تحت اربوں روپے مختص کئے۔ صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ دیا۔ صوبائی خودمختاری دیتے ہوئے، صوبوں کو منتقل کیے جانے والے اداروں کو سرمایہ کے ساتھ منتقل کیا۔ اس دوران دو خطرناک سیلاب بھی آئے، نہ خوراک کی کمی ہوئی نہ مہنگائی ہوئی۔
عالمی اداروں کے قرضوں کی اقساط بغیر کسی مشکل کے ادا ہوتی رہیں، حق بات یہ ہے کہ صدر آصف زرداری نے 2013 کے انتخابات میں آنے والی حکومت کو بااختیار پارلیمنٹ، مستحکم معیشت اور برداشت کے کلچر کے ساتھ اقتدار منتقل کیا تھا۔ مگر آج جب ساڑھے 6 سال کے بعد حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہر طرف فرشتوں کی مچائی ہوئی تباہی نظر آ رہی ہے۔ مان لیتے ہیں کہ میٹرو جیسے منصوبے بظاہر ترقی کے دلفریب تصویرکشی کا منظر ہیں مگر یہ بھی ایسے ہی ہے جیسے بھوک کے مارے انسان کے کفن پر عطر چھڑکا جائے۔
موجودہ سلیکٹڈ سونامی سرکار کو لانے کیلیے آشا پاشی اور شوق فیضی خلق خدا کیلیے عذاب بن گئے ہیں۔ عقل کے اندھے کہہ رہے تھے کہ سونامی آئے گی تو ملک پر فرشتوں کی حکمرانی ہو گی مگر ٹرانسپیرسی انٹر نیشنل نے فرشتہ حکومت پر کرپشن کی مھر لگا کر سونامی سرکار کا تیہ پانچہ ایک کر دیا ہے۔ جو گھر کو لگی ہے آگ گھر کے چراغ سے کی طرح ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ سونامی میں ڈوبتی ہوئی معیشت کے گناہ کا اقرار کون کرے گا؟ وہ سونامی جو 2018 میں عوام پر مسلط کی گئی۔