بڑے میڈیا ہاؤسز میں بھی اچھے دنوں تک یہی کلچر رہا ہے کہ ناخوش ہو جانے پر مالک اپنے کسی ایڈیٹر کو کالم لکھنے پر لگا دیتا تھا یا کسی رپورٹر کو اپنے نیوز ٹی وی چینل میں رن ڈاؤن پر بٹھا دیتا تھا۔ ایسے پروفیشنل ورکر کو اگرچہ وہی پہلے والی بڑی تنخواہ ملتی رہتی تھی مگر کام والی بااختیار پوزیشن سے اسے ہٹا دیا جاتا تھا۔ انگریزی میں اسے dump کرنا کہتے ہیں۔
آدھے پاکستان یعنی ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے چیف ایگزیکٹو کی کرسی پر کپتان محض ایک نمائشی مگر کمزور چہرہ بٹھائے رکھنے پر صرف اس لئے بضد یا دوسرے لفظوں میں ڈٹا رہا، یہاں تک کہ ایک عرصے سے جاری مقتدر حلقوں کے دباؤ کے سامنے بھی مزاحم رہا کہ اسے ادراک تھا کہ جس دن اس کرسی پر بیٹھ کر کسی نے ڈلیور یا پرفارم کرنا شروع کر دیا، اسی دن مرکز میں کپتان کے مقابلے میں ایک اور امیدوار پیدا ہو جائے گا۔ چاہے وہ کسی اتحادی جماعت کا بندہ ہو یا خود PTI کی کوئی شخصیت۔
جُوں جُوں مرکز میں قائم حکومت کے حصے میں ناکامیاں اور نااہلیاں آتی گئیں۔ کپتان کی عدم خود اعتمادی اور پنجاب کے حوالے سے یہ خوف بڑھتا گیا۔ پھر ایک دوسری وجہ، ذرائع کے مطابق استخارہ کی خلاف ورزی کا خوف بھی تھا کیونکہ پنجاب کی پگ رکھنے کے لئے پنجاب کے پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہونے والے تونسہ شریف کے ایک عام سے سر کا انتخاب پے در پے 3 استخاروں کے نتیجے میں ہوا تھا، لیکن جب پانی ہی سر سے اونچا ہونے لگ جائے تو بہتر ہوتا کہ بستی کے سارے سروں کے ڈوب جانے کا رسک لینے کے بجائے، سب سے اونچے سر کی قربانی دے دی جائے۔
لگتا ہے تونسہ والے نے کپتان کی آمد سے پہلے جہاں اس حد تک طاقت کا مُظاہرہ کیا کہ نہ صرف پسماندہ جنوبی پنجاب سے تعلّق رکھنے والے سرکش گروپ کے اراکین اسمبلی سے اپنے ساتھ اظہار یکجہتی کروا لیا بلکہ الیکشن ہار جانے والے ٹکٹ ہولڈرز تک کو ساتھ ملا لیا، وہیں آخری کوشش کے طور پر جہانگیر ترین سے ملاقات کر کے غالباً مدد کی درخواست کی ہے مگر شاید بنی گالہ اور پرائم منسٹر ہاؤس میں ان کے سب سے بڑے سپورٹر نے بھی انہیں کوئی واضح امید نہیں دلائی، اور پرائم منسٹر سے پہلے ڈپٹی پرائم منسٹر کی ملاقات بھی انہیں سہارا نہ دے پائی۔
شاید اب صوبے اور بالخصوص مرکز میں قائم خود کپتان کی حکومت کے وسیع تر مفاد میں کپتان کو اپنے وسیم اکرم پلس کو یہ کہتے ہوئے حوصلے کے ساتھ رخصت کرنا پڑ جائے کہ بزدار تیرے خون سے انقلاب آئے گا۔ ادھر بتایا جاتا ہے کہ پنجاب میں کپتان کے سب سے اہم اتحادی چوہدری برادران نے شریف برادران یعنی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر بھرپور اقتدار پر موجودہ سیٹ اپ ہی میں نسبتاً کمتر اور پس پردہ اقتدار ہی کا لطف اٹھانا جاری رکھنے کو ترجیح دی ہے اور ن لیگ کی وزارتِ اعلیٰ کی پیشکش ٹھکرا دی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ظہور الہی ہاؤس، جاتی عمرہ والوں پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ چوہدری، عمران خان کے مقابلے میں شریف برادران کو ناقابل اعتماد سمجھتے ہیں، اس لئے وہ کوئی سیاسی رسک لینے کو تیار نہیں، چوہدریوں کا کہنا ہے شریف برادران ہمیں استعمال کر کے کل پھر سے چھوڑ گئے تو ہم کیا کر لیں گے؟