ویسے تو خواتین ماشااللّہ آپ کو بڑی بڑی جگہوں پر، ڈاکٹر، لیکچرر، انجینئر غرض کے بہت سی جگہوں پر دِکھتی ہیں اور ہر جگہ مختلف طرح کے مسائل سے دو چار ہوتی ہیں مگر آج میں صرف اپنی بات کروں گی، چھوٹی چھوٹی جگہوں پر، تھوڑے معاوضے کی بڑی قیمت چکاتی ہوئی، یہ میں ہوں۔۔۔
آج آپ سے بات کرنے یہاں پر اس لیے آئی ہوں کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ لوگوں کو میرے بارے میں کوئی بڑی غلط فہمی ہوئی ہے، میرے گھر والے نا، شریف لوگ ہی ہیں آپ کی طرح۔
میں کام کرنے کے لیے باہر اس لیے آئی تھی کہ ابا اکیلے پورے گھر کی سب معاشی ضروریات پوری کرنے کے چکر میں صحت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور ضروریات پوری ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں تھیں۔ تو میں نے سوچا کہ میں بھی کوئی کام کروں اور ہمارے گھر کے بہت سے لوگوں میں سے ایک کا بوجھ تو کم ہو، کسی جگہ میں اس لیے باہر آتی ہوں کہ شوہر خرچ نہیں دیتا اور بچوں کی بھوک مجھے گھر کی دہلیز سے کھینچ لاتی ہے تو کہیں گھر کے سربراہ کی بیماری یا کوئی ناگہانی مجھے باہر لے آتی ہے۔
عورت کی معاشی مضبوطی، اس کی آزادی، اس کی برابری اور زندگی پر حق سب بہت خوبصورت باتیں ہیں جی! مگر جہاں میں کھڑی ہوں اس جگہ سے بہت اونچی ہیں مجھے تو یہی جو آپ کو بتائی ہیں نا، ایسی ہی کوئی مجبوری گھر سے باہر نکال لائی ہوتی ہے۔ اور میں نے سوچا تھا کہ باہر کی دنیا کے لوگ مجھے بھی اپنے جیسا مزدور انسان سمجھ کر اس بڑی سی دنیا سے اپنے حصے کا تھوڑا سا رزق کمانے دیں گے، مگر آپ لوگوں کو لگتا ہے کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے میرے بارے میں۔
آپ کو لگتا ہے نا کہ میرے اس طرح باہر آنے کے پیچھے کوئی مقصد ہے اور میں آپ لوگوں سے مختلف ہوں۔ مکریں مت! سب جان چکی ہوں، بہت دنوں سے آپ سب کو دیکھ رہی ہوں، جیسے وہ بس والا، جسے شاید یہ غلط فہمی ہے کہ میں اس کی بس میں سفر کام پر جانے کے لیے بلکہ اس لیے کرتی ہوں کے مجھے اس کا ٹکٹ پکڑاتے ہوئے، میرے ہاتھ کو چھونے کی کوشش کرنا پسند ہے، اس لیے روز بس پر چڑھتی ہوں۔ یا اسے لگتا ہے کہ جب وہ بلاوجہ مجھے دیکھ کر مسکراتا ہے تو میں شرما کر منہ پھیرتی ہوں، نہیں بھائی! نکلو اس غلط فہمی سے، میں ناگواری سے منہ پرے کرتی ہوں۔
یا جس طرح بس میں موجود دوسرے لوگوں کو لگتا ہے کہ دوران سفر ان کا مجھے چھونے کی کوشش کرنا پسند ہے اس لیے چپ ہوں۔ نہیں مجھے بہت کراہت آتی ہے، آپ کی اس حرکت سے اور بے بسی بھی بہت محسوس ہوتی ہے، میں صرف اتنے لوگوں کیی مرکز نگاہ بننے سے جھجھکتی ہوں، مجھے روز یہیں سے سفر کرنا ہے۔
ایسے ہی میرے ساتھ کام کرنے والوں کو لگتا ہے کہ شاید میں گھر سے باہر ان سے باتیں کرنے آتی ہوں، ان سے گپ شپ لگانے، اور یا پھر ان کی مردانہ نظر کی تسکین کے لیے، یہاں بھی وہ ایک غلط فہمی کا ہی شکار ہوتے ہیں، سمجھانا چاہو تو کہا جاتا ہے کہ پھر بن سنور کے نہیں نکلنا تھا، کیا مجھے صاف ستھرا رہنے کا حق نہیں، آپ اچھے سے تیار ہو کر آتے ہیں کہ روز بہت سے لوگوں سے ملنا ہو گا۔ میں بھی اسے لیے صاف ستھری ہوتی ہوں، کیا آپ پسند کریں گے کہ آپ انتہائی گندے، سلوٹ زدہ کپڑوں میں بنا منہ دھوئے، بال بنائے اپنے کام کی جگہ پر جائیں، بلکہ گھر میں بھی ایسے رہنے کا ایک ہی مطلب ہے کہ آپ ایک صفائی پسند انسان نہیں ہیں، اور بعض جگہوں پر تو ایک یہ میرے کام کا ایک حصہ ہوتا ہے، وہ آپ لوگ کہتے ہیں نا کہ part of my job تو، وہ والی بات ہے۔
ہر شخص کو لگتا ہے کہ میں اس کے لیے گھر سے نکلی ہوں، کام کی جگہ پر موجود تقریباً ہر شخص ہی میرا دعویدار، جس کو بھی یہ بتانا چاہوں کہ آپ کی بے تکلفی مجھے تکلیف دے رہی ہے ۔ وہی کہنے لگتا ہے کہ میں اب اسے چھوڑ کر کسی دوسرے کی طرف مائل ہوں۔
جناب! میں یہاں مائل ہونے یا کرنے نہیں آئی اپنی معیشت کی جنگ لڑنے آئی ہوں، اور جو کوئی بھی آپ سے اونچی کرسی پر بیٹھا ہے اسے تو لگتا ہے کہ اس کے حصول کے سوا کچھ اور سوچنا بھی شاید آپ کے لیے گناہ کبیرہ اور اپنے فرض سے غداری ہو گی۔
کیسے بتاؤں! اگر نوکری کے معاہدے میں یہ لکھا ہوتا کہ کام کے ساتھ ساتھ اردگرد موجود ہر مرد سے بے تکلفی بھی آپ کے اولین فرائض میں شامل ہے تو میں بھوکا رہنا قبول کر لیتی۔ اس سب سے لڑ کر جب گھر کی راہ لو، صبح کے بس والے رویوں کو یاد کرتے ہوئے کسی کولیگ کے ساتھ مل ٹیکسی لینے کا سوچوں تو پہلے تو اس بھائی کو بتانا پڑتا ہے کہ، بھائی سواری چاہیے شوہر نہیں۔ وہ گھر پر پہلے سے موجود ہے۔
اس اذیت ناک سفر کے اختتام پر گھر کی گلی میں موجود ہر آنکھ ہی ایسے دیکھ رہی ہوتی ہے کہ شاید میں دفتر سے نہیں بلکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے آئی ہوں۔ جملے اچھالنے اور میرے کردار پر بات کرنے کو تیار۔
ہر شام گھر کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے سوچتی ہوں، بھوکا رہ لوں گی مگر اب نہیں نکلنا اور ہر صبح اپنے پیٹ کی بھوک سے لڑ بھی لوں تو کسی پیارے کی بھوک انہیں راستوں پر، انہی غلط فہمیوں میں گھرے لوگوں کے ساتھ دن گزارنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اردگرد موجود ہر شخص ہی اس قدر غلط فہمی کا شکار ہے میرے بارے میں کہ اب تو کبھی کبھار، رات کے اندھیرے میں کہیں خود کو کہنے لگتی ہوں کہ شاید میں ہی غلط ہوں، شاید میرا ایک ہی کام ہے، مرد کی بری نظر کی تسکین، اگر میرا آپ سے کوئی رشتہ نہیں ہے تو بس میں آپ کو ایک ہی نظر سے دیکھ سکتی ہے، شاید بھوک، ضرورت بیماری سے بلا علاج مر جانا بھی چھوٹی بات ہے، جھوٹا بہانہ ہے مجھے تو بس خود نمائی ہی چاہیے تھی۔ جتنا بھی روؤں اپنے اندر کو کہوں کہ چپ کرو، ایسی گھٹیا بات مت کرو پھر بھی سوال اٹھتا ہے کہ میرا درد میرے سوا کسی کو نہیں دکھتا ، میری محنت کی بجاۓ سب کو میرا وجود ہی کیوں نظر آتا ہے۔
کیا آپ نے دیکھا ہے کبھی مجھے، کہیں آپ کو بس میں مشروب پیش کرتے، کہیں کاؤنٹر پر آپ کی بتائی چیز رکھتے، کبھی آپ کا چیک کیش کر کے دیتے تو کبھی آپ کے گھر صفائی کرنے آئی ہوئی کو۔ کبھی کسی فاسٹ فوڈ پوائنٹ پر آپ کو مسکرا کر، خالی میز کی طرف آپ کی رہنمائی کرتے ہوئے یقیناً دیکھا ہو گا۔ بس یہ درخواست کرنی تھی کہ اگلی بار جب میں آپ کو نظر آؤں تو صرف میری مسکراہٹ کو مت دیکھیے گا، اس کے خالی پن اور اپنی ایسی ہی کسی غلط فہمی کی وجہ سے میری آنکھ میں ابھرنے والی نمی کو بھی دیکھنے کی کوشش کیجیے گا۔
اپنی لمحاتی تسکین کے لیے مجھے چھونے کی کوشش کی بجائے اس لمس سے میری روح پر ابھرنے والے نیل اور دل پر لہو زدہ خراش کی طرف پر بھی نظر کیجیے گا، میرے پاس روزی کمانے کے لیے، آپ کی جنسی خواہشات کی تسکین کے علاوہ بھی راستے ہیں۔ میرے جسم کے علاوہ میرے اور بھی ہنر ہیں۔ مجھے ان راستوں پر چلنے دیں، ہنر سے روزی کمانے دیں، اگر میں نے زندگی کمانے کے لیے اس ایک راستے کی بجائے کوئی دوسرا راستہ چنا ہے تو مجھے عزت سے اس راستے پر چلنے دیں، میں ہاتھ نہیں پھیلا رہی، مدد بھی نہیں مانگ رہی بس محنت کر رہی ہوں وہ تو کرنے دیں نا۔ اگر حصول رزق عین عبادت ہے تو میرے گھر اور پیٹ کو اس عبادت کے اجر کی بہت ضرورت ہے۔ اور عبادت سے تو خدا بھی نہیں روکتا پھر آپ بھی ناخدا ہونا چھوڑے اپنی غلط فہمیوں پر نظر ڈالیے اور ایک مزدور کی سی عزت مجھے بھی دیں، یہ آپ کا احسان نہیں میرا حق ہے اور حق تلفی بہت بڑا گناہ ہے۔