حکومتیں پولیس کو اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ اپنے سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے کے لیے پولیس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ معاشرے میں پولیس والے کا تصور ایک بے ایمان ظالم شخص کا بن چکا ہے۔ عقوبت خانے بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے پولیس والوں کا کردار اس قدر آلودہ کر دیا ہے کوئی بھی پولیس پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ تھانے کے تھانے بک جاتے ہیں۔ عورتیں تو دور کی بات ہے ایک شریف مرد شہری بھی تھانے جانے سے گھبراتا ہے۔ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
ان حالات میں پولیس اصلاحات وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔ 2013ء میں تحریک انصاف کو خیبرپختونخواہ میں حکومت ملی وہاں پہلی بار پولیس اصلاحات کی گئی۔ آئی جی خیبرپختونخواہ ناصر درانی کے کردار کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ انہوں نے خیبرپختونخواہ کی پولیس کو باقی صوبوں کی پولیس سے بہت بہتر کر دیا ہے۔ 2016ء میں جب تحریک انصاف کو مرکز اور پنجاب میں حکومت مل گئی۔ پنجاب میں پولیس اصلاحات کرنے کی کوشش کی گئی اور ناصر خان درانی کو پولیس اصلاح کمیشن کا چیئرمین لگایا گیا مگر وہ پنجاب میں کامیابی حاصل نہ کر سکے جو کامیابی انہوں نے خیبرپختونخواہ میں کی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ پنجاب پولیس کا رویہ اور ان کا مائنڈ سیٹ ہے۔
راقم کو کچھ سیاسی کارکنوں کے انٹرویو کرنے اور ان کی آپ بیتیاں پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ عسکری حکمرانوں کے دور میں جب ان کو گرفتار کر کے مختلف جیلوں میں رکھا جاتا تھا۔ جب وہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی جیلوں میں جاتے تھے وہاں کے پولیس افسروں کا رویہ پنجاب اور سندھ کے پولیس افسروں کی نسبت زیادہ بہتر ہوتا تھا اور انسانی حقوق کے حوالے سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے آفیسر پنجاب اور سندھ پولیس سے زیادہ بہتر تھے۔ بلکہ پنجاب پولیس کے آفیسر سب سے خراب تھے۔
گزشتہ دنوں روزن کے زیراہتمام ایک پولیس اصلاحات کے حوالے سے دو روزہ ورکشاپ لاہور کنٹری کلب مرید کے میں منعقد کی گئی جہاں پولیس اصلاحات کے حوالے سے سیرحاصل گفتگو کی گئی۔ پولیس اصلاحات کے حوالے سے جن بنیادی نکات اور مطالبات پر اتفاق رائے کیا گیا۔ پولیس میں سیاسی مداخلت کا خاتمہ، صوبائی اور ضلعی سطح پر پولیس آفسروں کی کارکردگی جانچنے کے لیے غیرجانبدار کمشنر کا قیام، پولیس میں بھرتی، ترقی اور تبادلے کے نظام میں بہتری اور شفافیت، تھانے کے مالی اور تکنیکی وسائل میں اضافہ، ہر تھانے میں کم از کم دو خواتین پولیس اہلکاروں کی تعیناتی اور پولیس میں خواتین کو کم از کم دس فی صد تعداد کو یقینی بنانا، پولیس اہلکاروں کے لیے 8 گھنٹے شفٹ کا انعقاد، ایس ایچ او کا کم از کم ایک سال، ڈی پی او اور آئی جی پولیس کا 2 سال سے پہلے تبادلہ نہ کیا جائے، ہر ضلع میں کم از کم ایک انٹی جنڈر کرائم سیل، خواتین، بچوں، خواجہ سرا اور معذور افراد، اقلیتوں کے قوانین پر پولیس اہلکاروں کی تربیت کی جائے اور تفتیش کے بجٹ میں واضح اضافہ کیا جائے، پولیس اہلکاروں اوران کے خاندانوں کو طبی اور تعلیمی سہولیات کی فراہمی کی جائے، پولیس کا مثبت تاثر اجاگر کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
ان مطالبات پر آئی جی پنجاب اور صوبائی حکومت کو بڑی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ان اقدامات پر عمل درآمد شروع کر دیا جائے تو پنجاب پولیس میں اصلاحات کا انعقاد ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے الیکشن سے قبل وعدہ کیا تھا وہ خیبرپختونخوا کی طرح پنجاب پولیس میں بھی اصلاحات کریں گے۔ شہبازشریف جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے تب ماڈل ٹاؤن میں پولیس کی طرف سے جو قتل عام کیا گیا تھا تو عمران خان ایک بہت بڑے ناقد بن گئے تھے۔ اب پنجاب میں ان کی حکومت ہے۔ ساہیوال میں پولیس گردی کا ایک واقعہ سامنے آ چکا ہے۔ اگرچہ ماڈل ٹاؤن اور ساہیوال کے واقعات کو ایک کسوٹی پر نہیں پرکھا جا سکتا دونوں واقعات کے محرکات الگ الگ ہیں۔ تاہم اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ ساہیوال میں بھی پولیس کے ہاتھوں ناحق قتل ہوئے تو ہیں۔ ان حالات کے تناظر میں موجودہ حکومت پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ پولیس کا قبلہ درست کرے اور اصلاحات کا وعدہ ممکن بنائے۔ اگر آپ ایک فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے تین شعبوں پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ صحت، پولیس اور عدلیہ کیونکہ عوام کا ان تینوں محکموں سے براہ راست وابستہ پڑتا ہے۔ اگر ان تینوں شعبوں کو موجودہ حکومت ٹھیک کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ بڑی کامیابی ہو گی۔