چالیس سال سے میرا ہیرو، بیس سال سے میرا چئیرمین ، اور ساڑے تین سال سے میرے وزیراعظم نے مجھے کیسابینکا سے سائل بننے کا موقع دیا۔
تقریباً بیس سال سے عمران خان کو پاکستان کا نجات دہندہ سمجھ کر اور پاکستان میں تبدیلی کے عظیم مقصد کے تحت میں عمران خان کا کیسابینکا(Casabianca) بن گیا۔ جو بھی ذمہ داری دی اسے نا صرف احسن طریقے سے ادا کیا بلکہ ہر ذمہ داری کے ساتھ کچھ نیا بھی کرکے دکھایا۔ سی ای سی کے ممبر ، ڈپٹی سیکریٹری انفارمیشن، ہیڈ آف سنٹرل میڈیا سیل، صدر پی ٹی آئ بہاول نگر، ڈپٹی سیکریٹری OIC, ہیڈ آف اوورسیز چیپٹرز یورپ، ایڈیشنل سیکریٹری انفارمیشن اور بالآخر مرکزی سیکریٹری اطلاعات کا سفر انتہائی کامیابی سے اور دیانتداری سے ادا کیا، پارٹی کی لیڈرشپ، ورکرز اور ممبرز سے عزت کمائی۔
2018 میں میرا ہیرو عمران خان اقتدار میں آگیا اور مجھے مرکزی سیکریٹری اطلاعات لگانے کی آفر دی گئی۔ نا چاہتے ہوئے بھی میں نے سیف اللہ نیازی کی کال پر ہاں کر دی۔ کیسابینکا کی طرح میں اپنی ڈیوٹی پر لگ گیا۔
ڈیوٹی کیا تھی؟ جس جہاز کی بھاگ دوڑ عمران خان کو دی گئی، اُس جہاز کے عرشے پر کھڑے ہو کر دن رات عمران خان کی تعریفیں کرنی ہیں اور اپوزیشن کا بینڈ بجانا ہے۔ میں نے مناسب طریقے سے عمران خان کے کچھ اچھے اعلانات کی بنیاد پر (کیونکہ عمل سے عمران خان کا کوئی تعلق نہیں) حکومت کا دفاع اور اپوزیشن کی کمزوریوں پر تنقید شروع کر دی۔ پھر احساس ہوا کہ عمران خان کا حکومت کی نمائندگی کے حوالے سے میعار شہباز گل، فواد چوہدری، مراد سعید، شیخ رشید، علی زیدی اور حماد اظہر ہیں تو اپنی غلطی کا احساس ہوا، میں نے پھر بھی تقریبا ڈھائی سال تک کوشش کی کہ بغیر بدتمیزی، بد تہذیبی اور انصاف کے ساتھ پارٹی بیانیہ دوں، لیکن انصاف اور وہ بھی تحریک انصاف میں نا ممکن ہے۔
ایک سال تک غوروفکر کیا، دوستوں سے صلاح مشورے کیے، اور بالآخر مری کے واقعے پر اپنے ضمیر کی آواز پر اپنے سوچے سمجھے فیصلہ پر عملدرآمد کردیا۔
تو یہ ہے میرا سفر کیسابینکا سے سائل بننے کا اور اُس سوال کا جواب “میں نے تحریک انصاف کی لیڈرشپ کے خلاف آواز کیوں آواز بلند کی” ۔ جس کا ضمیر مری واقعے کے بعد بھی نہیں جاگا، شاید وہ کبھی نہیں جاگے گا۔
میرے سفر کے دوران میری انصاف پر مبنی ٹوئیٹس پر پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے گالی گلوچ اور بدتمیزی کرتی تھی، مزے کی بات ہے کہ پرائم منسٹر کے زیر سایہ سوشل میڈیا ٹیم نے پاکستان میں بدتمیزی اور گالی گلوچ کے ریکارڈ قائم کر دئیے۔ اس میں کچھ پڑھے لکھے، شائستہ اور مہذب سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ بھی ہیں لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ محلوں اور گلیوں کے نکڑ پر آوارہ کتے ہر آنے جانے والے پر بھونکتے ہیں لیکن یہ کتے کاٹ نہیں سکتے، اس لئے ان کے بھونکنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُس نے پاکستان کی نوجوان نسل کو بدتمیزی کی اکیلے ہی اتنی زبردست تربیت دی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اب ایسے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کرائے کے بھونکنے والے کتے بن گئے ہیں۔ اس بھٹکی ہوئی اس نوجوان نسل کو آج سیاسی پارٹیاں، ادارے،سیاسی لیڈر، کاروباری ادارے قیمت ادا کرکے اپنے مفادات کیلئے اور دوسروں پر بھونکنے کیلئے استعمال کرتے ہیں، میں سوشل میڈیا پر مہذب، تعلیم یافتہ اور وہ جن کی تربیت رزق حلال اور شریف ماں باپ نے کی ہے، سے درخواست کروں گا کہ وہ سوشل میڈیا پر بدتمیزی کے طوفان کو روکنے کیلئے میرا ساتھ دیں۔ یہ ملک اور معاشرہ بچانے کی جنگ ہے اور میں اس جنگ میں کود چکا ہوں۔
" اگر دریا فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو اسکے کے لئے بھی میں جوابدہ ھونگا "
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
مری میں جان سے ہاتھ دھونے والی اس معصوم بیٹی کا چہرہ دیکھوں یا پی ٹی آئی کا بیانیہ؟ ساہیوال کی اُس بیٹی کا چہرہ یاد کروں جس کے ماں باپ اُس کی نظر وں کے سامنے گولیوں سے بھون دئیے گئے یا اپنے ہیرو کی تقریروں کو سنوں۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا ہے۔
یہ ایک سسٹم کے مکمل طور پر فیل ہونے کا ثبوت ہے، یہ مجرمانہ غفلت ہے، یہ ایک سسٹم کی نااہلی کا ثبوت ہے۔
نااہلی ہمارے سسٹم کی جڑوں میں رچی بسی ہے اور ریاست مدینہ کے دعوے دار اس نااہلی میں کمی تو نا کرسکے لیکن نااہلی کو انتہا تک پہنچا دیا۔
کہاں تک سنو گے، کہاں تک سناؤں۔
حماد اظہر کا گیس کی کمی پر تکبرانہ بیانیہ سنوں اور شاہ زیب خان زادہ کے ہاتھوں درگت بنتے دیکھوں، شہزاد اکبر کا پریس کانفرنسوں والا احتساب سنوں، بزدار پلس کی تربیت کا انتظار کروں، شیخ رشید کا کچرا اُٹھاؤں، مراد سعید کے 200 ارب ڈالر ڈھونڈوں، شہباز گل کے نا پسندیدہ بیان سنوں، فواد چودھری کی سوداگری سنوں، سوشل میڈیا پر غلاظت پڑھوں اور سر دھنوں، مری کی طرف گاڑیوں کی تعداد گن کر ملک کی معیشت بیان کرنیوالوں کو سنوں، ندیم بابر کے والد کے شوکت خانم کینسر ہاسپیٹل پر احسانات کو سنوں، دو دو گھنٹے اپوزیشن کو چیرنے کی ہدایات سنوں، عامر کیانی کی کرپشن کی داستانیں سنوں، بیرون ملک پی ٹی آئی رہنماؤں کی عیاشیاں سنوں؟ ایک کروڑ نوکریاں ڈھونڈوں، پچاس لاکھ گھر ڈھونڈوں، پی ٹی وی کی تباہی دیکھوں، شبلی فراز کو جھومتا دیکھوں،اسد عمر کی خاموشی دیکھوں، رزاق داؤد کے اربوں کے کنٹریکٹ دیکھوں، بر اعظم خان کی کہانیاں سنوں، ڈاکٹر عیش و عشرت حسین جیسے ابن الوقت، نالائق اور متروک ایڈوائزر کو حکومت کو لیڈ کرتے دیکھوں، شان وشوکت ترین اور آئی ایم ایف کے رضا کار باقر کو دیکھوں۔
اب یہ سرکس بند کرنا ہوگا، جولروں، مداریوں اور کرتب بازوں کی چھٹی کرنی ہوگی۔ یا پاکستان چلے گا یا یہ سرکس چلے گا، تماش بینوں کا مزاج اور شوق بدلنا ہو گا۔اب ملک بچانے کا وقت ہے۔
شہزاد اکبر کا استعفی، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ، پرویز خٹک کا کھڑاک، نور عالم کا سچ، راوی اربن کالعدم، اب جہاز ڈوبنے والا ہے۔ اس جہاز کا کپتان اس جہاز کے ساتھ نیچے جائے گا؟ یا جہاز سے چھلانگ لگائے گا؟ جہاز کے چوہے جہاز ڈوبنے پر ڈوبیں گے نہیں، وہ جہاز ڈوبنے کے بعد تیرتے ہوۓ دوسرے جہاز پر چڑھ جاتے ہیں۔
اگر عمران خان کو واقعی اس ملک کی خدمت کا شوق ہے، ترکی میں اردوگان کی پارٹی کے انقرہ ہیڈ کوارٹر میں ایک سال کی انٹرن شپ کر لیں۔
اگر عمران خان آج ریاست مدینہ کی جھلک دیکھنا چاہتے ہیں تو ترکی کے بازاروں میں تشریف لائیں، دریائے فرات پر پیاسے کتے کی مثال کا زندہ مظاہرہ دیکھ لیں، ترکی میں ہر آوارہ کتے کو کمبل، چھوٹا سا گھر، روزانہ خوراک اور طبی مدد دی جاتی ہے، اس سے اندازہ کر لیں کہ ترکی میں انسانوں کا کیسے خیال رکھا جاتا ہے۔
کیسا بینکا سے سائل بننے کا سفر تکلیف دہ ضرور ہے لیکن فرض کی ادائیگی سے لیکر ضمیر کی آواز تک سفر اصولوں کا سفر ہے، ہر کسی کی سمجھ میں نہیں آئے گا، خاص طور پر فرض کی ادائیگی سے نابلد، ناکام،ضمیر فروش اور عمران خان کی نوکری کرنیوالوں کے سر کے اُوپر سے یہ بات گزر جائے گی۔
میں سوشل میڈیا پر بھونکنے والوں کی لسٹ بنا رہا ہوں، پاکستان میں آیف آئی اے، پرائم منسٹر ، اعلی عہدے داروں، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک ایسے چہروں کو بے نقاب کروں گا۔ اگر پھر بھی انصاف نا ملا تو ٹوئٹر اور فیس بک کے خلاف بدتمیزی پھیلانے کا بین الاقوامی مقدمہ امریکہ جا کر کروں گا، اقوام متحدہ بھی جاؤں گا۔
میں نے ڈیجیٹل بھل صفائی کا آغاز کر دیا ہے، شہر میں اگر غلاظت کے ڈھیر لگ جاتے ہیں، تو کچرا اُٹھانا پڑتا ہے ورنہ شہر رہنے کے قابل نہیں رہتا، آئیے ڈیجیٹل بھل صفائی میں ساتھ دیں، سوشل میڈیا کی غلاظت آپ کے چند کلک سے دور ہو سکتی ہے، اپنے اکاوئنٹ میں جائیں اور اس غلاظت کو فیس بک، ٹوئٹر، وٹس ایپ سے باہر پھینک دیں، یہ غلاظت بے نامی کی موت مر جائے گی۔
سوشل میڈیا پر بڑے بڑے اداروں کولیکچر دیتے ہوئے سوشل میڈیا کی تربیت کے حوالے سے مختلف تجاویز دیتا رہا۔
جب گاڑی کا ایگزاسٹ برف کے نیچے چلا جائے تو کاربن مونو آکسائیڈ گاڑی کے اندر لوگوں کو سلا دیتی ہے اور پھر موت کی وادی میں لے جاتی ہے۔ آج پرائم منسٹر ہاؤس کا ایگزاسٹ بھی برف کے نیچے چلا گیا ہے اور درباریوں کی خوشامد کاربن مونو آکسائڈ بن کر عمران خان کو سلا چکی ہے۔ عمران خان نے بچنا ہے تو گاڑی کا دروازہ کھول کر تازہ ہوا میں سانس لیں۔ گاڑی میں سے درباریوں کو ٹائیگر فورس میں بھرتی کریں اور انہیں ملک کا کچرا اور غلاظت صاف کرنے پر لگا دیں،یہی ان کا بہترین مصرف ہے۔
میری باتوں مین چُبھن محسوس ہو تو سمجھ لیجیۓ گا کہ میں کورونا کی وہ ویکسین ہوں، اگر آپ نے لگوا لی تو دوبارہ کورونا کا شکار نہیں ہوں گے۔ پی ٹی آئ کی ٹاپ لیڈرشپ کو میری ویکسین کی ضرورت ہے۔
اب کچھ عرصے سے میں یہ دعا کر رہا ہوں، کہ اللہ عمران خان کے ساتھ انصاف کرے، انشاللہ اب عمران خان کے ساتھ انصاف کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ میں نے یہ بھی دعا کی کہ مجھے روشنی دکھا، راستہ دکھا۔ اللہ نے مجھے راستہ دکھا دیا، اب عمران خان کے ساتھ اللہ کے انصاف کا انتظار ہے۔ سب جانتے ہیں اللہ کا انصاف کتنا سخت ہوتا ہے۔ حضرت امام حسن اور عبدالقادر جیلانی کی آل اولاد ہوں۔ میری دعا عرش تک جاتی ہے۔
سیاست میں نوکری کرنے نہیں آیا تھا، اس ملک میں غریب کی زندگی بدلنے آیا تھا،اپنے ملک کو عظیم بنانے کیلئے آیا تھا۔
بے پناہ کامیابی، دولت اور شہرت سیاست دان بننے سے پہلے سمیٹ چکا تھا۔ آج تک پی ٹی آئی سے ایک ٹکا نہیں لیا، اپنے پیسے لگائے، اپنا وقت لگایا۔ پچھلے ساڑھے تین سالوں میں اپنی حکومت کے ہوتے ہوئے ایک ٹکے کا فائدہ نہیں اٹھایا، کسی کی سفارش نہیں کی، سوائے ایک غریب امام مسجد کی بیٹی کی انٹرن شپ اور پاکستان کے سب سے بہترین نعت خواں کیلئے قومی ایوارڈ کیلئے شفقت محمود صاحب سے میرٹ پر درخواست کی۔
پی ٹی آئی میں شوکت یوسفزئ، نجیب ہارون، قاسم سوری، شفقت محمود ، ارشد داد، اعجاز چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد، بریگیڈیر سائمن ، عاطف خان جیسے بہت سے لوگوں سے باہمی احترام اور دوستی کا رشتہ بنایا۔ سیف اللہ نیازی سے گہرا تعلق رہا اور اُن کے بُرے وقت کا ساتھی رہا لیکن چیف آرگنائزر اور سینیٹر بن کر اُن سے ملنا بھی مشکل ہو گیا، عمران خان کو خطرات سے آگاہ کرنے کیلئے کئی دفعہ وقت مانگا لیکن وہ شہباز گل، فواد چوہدری اور درجنوں ناکارہ میڈیا ایڈوائزر کے ساتھ مصروف تھے۔
کیسابینکا کی عرشے پر ڈیوٹی پارٹی کی تنظیم ختم ہوتے ہی ختم ہو گئی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ پی ٹی آئ میں یا اسکی حکومت میں کبھی کوئ عہدہ نہیں لوں گا، لیکن میں پی ٹی آئ ہوں، وہ نہیں جو اب عمران خان کے گرد کھڑے ہیں۔ میں اب سائل ہوں جو صرف سوال کرے گا اور سوال کی چوٹ سے کرپٹ، نالائق، بدکردار اور پیراشوٹرز کو نشانہ بناۓ گا۔ میرا نشانہ بھی اچھا ہے اور میرا بارود بھی اچھی کوالٹی کا ہے، اب تیار ہو جائیں، میں آ رہا ہوں، اور میں کوئی بکنے والا مال نہیں کہ کوئی عہدہ مجھے میرے اصولوں سے ہٹا سکے۔
علی محمد خان نے منصور علی خان کے شو میں میری تعریفوں سے پروگرام کا آغاز کیا لیکن پھر پروگرام کے دوران ایک ایس ایم ایس آیا اور پھر علی محمد خان نے اچھل کود شروع کر دی، چلو اس سے بے چارے کی نوکری بچ گئی۔
میرا مقابلہ سرکس کے کھلاڑیوں سے ہے، لیکن اب سرکس کی حقیقت سب تک لے کر جاؤں گا۔اب پاکستان میں ایسے سرکسوں کا وقت ختم ہونے کو ہے۔ ان مداریوں اور جولروں کو پہچاننے کا وقت ہے۔