تفصیلات کے مطابق استغاثہ نے کہا کہ اس نوعیت کے 'کام' کا پہلا ذکر نومبر یا دسمبر 2020 میں ہوا تھا لیکن ہدف کے بارے میں کوئی تفصیلات شیئر نہیں کی گئی تھیں۔
اس کے بعد ایک میسیجنگ ایپلی کیشن کے ذریعے بھیجا گیا وائس نوٹ عدالت میں چلایا گیا، جس میں برطانوی لہجے میں ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’اگر پہلا (کام) ایک مہینے کے اندر اندر اچھی طرح سے کرلیا تو جون کے آخر تک تمہیں دوسرا اور اس کے بعد تیسرا (کام) بھی مل جائے گا، کام کے معیار کے لحاظ سے تمہیں تقریباً 20 ہزار سے 30 ہزار پاؤنڈز کی قسطیں ملتی رہیں گی۔‘
اس وائس نوٹ پر گوہر خان نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ’میں معیار کی ضمانت نہیں دیتا، انشاء اللہ کام ہونے کی ضمانت دیتا ہوں‘ ۔
اگلے میسجز میں گوہر خان نے مزمل کا نک نیم استعمال کرتے ہوئے قتل کی سازش کا حوالہ دیا کہ ’پاپا، آپ کے لڑکے پورے برطانیہ میں چھا چکے ہیں، یورپ میں ہماری بہترین کوشش ہوگی'۔‘
گوہر خان کے مطابق مزمل کی مشابہت ایک کارٹون کریکٹر ’پاپا اسمرف‘ سے ہونے کی وجہ سے اس کا نک نیم پاپا رکھا گیا تھا۔
استغاثہ نے یہ ثبوت عدالت میں گوہر خان کے اس دعوے کو چیلنج کرنے کے لیے پیش کیے کہ وہ احمد وقاص گورایا کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اور صرف مزمل سے پیسے نکلوانا چاہتا تھا۔
استغاثہ کی قیادت کرنے والی ایلیسن مورگن کیو سی نے کہا کہ اگر گوہر خان مڈل مین مزمل کو انکار کردیتا تو اسے مزید کوئی کام نہیں ملتا۔
استغاثہ کے حتمی دلائل کے بعد سماعت بدھ تک ملتوی کر دی گئی۔
جسٹس ہلیارڈ نے جیوری کو درج ذیل 3 اہم نکات پر اپنا فیصلہ سنانے کی ہدایت کی: - کیا وقاص گورایا کو قتل کرنے کے لیے سازش کی گئی تھی؟ - کیا گوہر خان اس سازش میں شامل تھا؟ - اور کیا وہ قتل کے منصوبے پر عملدرآمد کا ارادہ رکھتا تھا؟
جج نے یہ بھی وضاحت کی کہ جرم ثابت کرنے کے لیے استغاثہ کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ گوہر خان شروع سے ہی اس سازش کا حصہ تھا اور نہ ہی انہیں یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ تمام تفصیلات جانتا ہے، یا وہ سب سے رابطے میں رہا۔
جسٹس ہلیارڈ نے کہا کہ اگر وہ ثابت کر دیتے کہ گوہر خان نے وقاص گورایا کو قتل کرنے کی سازش کی تھی اور اس کا ارادہ وقاص گورایا کو قتل کرنا کا تھا تو یہ کافی ہے۔
گوہر خان نے بار بار کہا کہ اس کا کسی کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں تھا اور اس نے مزمل کو اس امید پر جھوٹ بولا تھا کہ وہ اس سے رقم نکلوا سکتا ہے۔
گزشتہ سماعتوں میں گوہر خان نے تفصیل سے بتایا تھاکہ مزمل ایک دھوکہ باز تھا جس پر گوہرخان کی رقم واجب الادا تھی اور وہ اس کی خراب مالی حالت کا ذمہ دار تھا۔
تاہم استغاثہ نے الزام عائد کیا کہ گوہر خان جھوٹ کا عادی ہے، جس نے قتل کی اس سازش میں اپنی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے خاندان کے افراد، امیگریشن حکام اور اپنے دوستوں سمیت متعدد افراد سے جھوٹ بولا۔
ایلیسن مورگن نے کہا کہ گوہرخان نے قتل کا جواز پیدا کرنے کے لیے مزمل سے 3 مرتبہ اس بات کی تصدیق مانگی کہ یہ 'قرض سے متعلق کام' نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ مکمل شعور کے ساتھ گوہرخان کا اس بات پر بار بار زور دینا اس کے قتل کرنے کے ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پہلی بار ڈیل کے ذکر پر گوہرخان نے مزمل کے جواب میں جو لہجہ استعمال کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ڈرامہ نہیں کر رہا تھا۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ جب مزمل ٹارگٹ کی تفصیلات گوہر خان کو بھیج رہا تھا، تو گوہر خوف زدہ ہو کر ردعمل دیتے ہوئے اس منصوبے سے دستبردار ہونے یا غم و غصے کا اظہار نہیں کررہا تھا۔
ایلیسن مورگن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جیوری کو اس بارے میں سوچنا چاہیے کہ گوہرخان نے اپنے خاندان کو کس حد تک مبینہ طور پر اس مجرمانہ سرگرمی میں گھسیٹا تھا، کیا وہ ایسا کرتا اگر یہ واقعی اس کے دعوے کے مطابق چند ہزار پاؤنڈز کا معاملہ تھا۔
انہوں نے ایک استاد عزیز کا نام لیا، جس سے گوہرخان نے اپنے ہالینڈ کے سفر کی ضمانت کے لیے جعلی خط لکھنے کے لیے رابطہ کیا تاکہ وہ حکام کو دھوکہ دے سکے۔
انہوں نے ایک فرد اکی کا نام بھی لیا، جس نے گوہر کو جعلی پی سی آر ٹیسٹ حاصل کرنے میں مدد کی۔
انہوں نے اس جانب توجہ دلائی کہ کیسے گوہر خان ہالینڈ کے سفر پر مصر رہا، اور بتایا کہ کس طرح اس نے ڈچ امیگریشن حکام کو اپنے ایک فرضی بھائی کے بارے میں بتایا اور ان سے اپنے بھائی سے ملنے نہ دینے کے بارے میں بحث کی۔
انہوں نے کہا کہ اگر وہ صرف دکھاوا کر رہا تھا، تو اس نے پھر ایمسٹرڈیم میں داخلے سے منع کیے جانے پر وہ ہالینڈ میں داخل ہونے کی دوبارہ کوشش کرنے کے لیے دو روز بعد یوروسٹار کے ذریعے پیرس کیوں گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ گوہر خان کی نظر کسی بہت بڑے انعام پر تھی، اگر انعام اتنا بڑا نہ ہوتا تو ظاہر ہے کہ وہ وہیں رک جاتا۔
ایلیسن مورگن نے پھر اس چاقو کا تذکرہ کیا جو استغاثہ کے مطابق مبیننہ طور پر قتل کے لیے مطلوبہ ہتھیار تھا۔
انہوں نے کہا کہ دکان پر دستیاب رینج میں یہ سب سے مہنگا چاقو تھا، جوباآسانی چھپایا جاسکتا تھا لیکن مبینہ قتل کے لیے بھی موزوں تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ چاقو 3 دن پرانے اسٹیک کو کاٹنے کے لیے نہیں تھا، گوہر نے تفتیش میں پولیس افسران سے چاقو کی اس خریداری کو ہر ممکن حد تک چھپائے رکھا۔
آج (بدھ کو) دفاع اپنے اختتامی دلائل دے گا جس کے بعد جیوری سوچ بچار کرکے اپنا فیصلہ سنائے گی۔