نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں نواز شریف کیساتھ ملاقات کی روداد بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے درمیان پاکستان کی سیاسی صورتحال اور آئندہ کے لائحہ عمل پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے لیگی قائد کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر ہم عدم اعتماد کرنے کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں کیونکہ ہماری جماعت کو اس کا نقصان ہوگا۔ اگر عدم اعتماد لانی ہے تو اسے اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے بغیر اور تمام سیاسی جماعتوں کے باہمی مذاکرات کے ساتھ ہی لانا چاہیے۔
مزمل سہروردی نے بتایا کہ دوسرا ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ پلان ہے کہ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرے اور الیکشن دسمبر 2023ء میں ہی ہونے ہیں تو پھر تحریک عدم اعتماد نہیں آنی چاہیے کیونکہ اس کا فائدہ عمران خان کو ہوگا۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر کوئی عمران خان کو بھیجنا چاہتا ہے تو یہ اس کا تیار کردہ ڈیزائن ہے ہمارا نہیں، ہم تو پھر فوری انتخابات چاہتے ہیں۔ اگر الیکشن نہ ہوئے تو پھر تبدیلی کس کام کی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے نواز شریف سے پوچھا کہ اگر عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو کیا اگلا وزیراعظم بھی پی ٹی آئی کا ہوگا؟ اس پر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ نہیں، اسے پی ڈی ایم سے ہونا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ نواز شریف کا کہنا تھا کہ آئندہ ڈیڑھ سال کیلئے اگر کوئی حکومت آئی تو وہ ملک کو مزید تباہی کی طرف لے کر جائے گی۔ کم مدت کیلئے آنے والی حکومت کوئی پرفارم نہیں کر سکے گی۔ ملک میں معاشی بہتری الیکشن کے نتیجے میں آنے والی نئی حکومت ہی لا سکتی ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے پی ٹی آئی کے اپنے لوگ ن لیگ کیساتھ رابطے میں ہیں۔ نواز شریف کے جہانگیر ترین گروپ اور مسلم لیگ ق سمیت سب کیساتھ رابطے ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ میں ایک سیاستدان ہوں، اگر کوئی چیز میرے فائدے کی ہوگی تو میں اسے ضرور لوں گا۔ ایسا کوئی سودا نہیں کرینگے جس سے ہماری سیاسی خود کشی کا اندیشہ ہو۔