فواد چودھری کو لاہور میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے موبائل فون کی لائیو لوکیشن سے انہیں ٹریس کیا۔ تحریک انصاف کے تمام رہنماؤں کو اپنے موبائل کی لائیو لوکیشن بند کر دینی چاہئیے ورنہ یہ اب 80 اور 90 کی دہائی تو ہے نہیں کہ جیل جانے پر سیاست دانوں کو 'سیاسی ہیرو' قرار دے دیا جائے۔ حالیہ مثال عوام کے سامنے شہباز گل کی ہے۔ جیل سے واپسی کے بعد نہ ان کی طبیعت ٹھیک ہوئی، نہ ہی وہ سیاست میں اتنے سر گرم ہیں۔ ہاں مگر کبھی کبھی ٹویٹر پر دعاؤں کے لئے شکریہ کی ٹویٹ ضرور کرتے ہیں۔
سیاست میں ایک عام اور سیدھا سا نظام واضح طور پر رائج ہو گیا ہے؛ 'جس کی لاٹھی اس کی بھینس'۔ یہاں لاٹھی کے لفظ کو محاورے کے تناظر میں ہی دیکھا جائے۔ جو قارئین اسے محاورہ نہیں سمجھ رہے وہ شعور کے اعلیٰ مقام پر ہیں۔
فواد چودھری کی سیاسی کشتی میں دراصل سوراخ تحریک انصاف کے 43 قومی اسمبلی کے اراکین کی وجہ سے ہوئے۔ ان میں سے 22 جنرل نشستوں اور 21 مخصوص نشستوں کے ممبران کا الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنا ایک اہم کڑی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے استعفوں کا معاملہ چند روز کے بعد حل کر ہی دینا تھا۔ راجہ ریاض کو گھر بھیجنے کے چکر میں خود ساری تحریک انصاف راجہ پرویز اشرف کے ہاتھوں گھر چلی گئی۔
43 ممبران کے استعفے منظور ہونے اور پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنرز کی طرف سے دونوں صوبوں میں الیکشن کی تاریخ نہ دینے کے معاملے پر فواد چودھری نے الیکشن کمیشن کے ادارے اور چیف الیکشن کمشنر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کو فون کیا جاتا ہے اور ایک کلرک کی طرح بیٹھ کر دستخط کر دیتے ہیں۔ آپ اتنے کمزور ہیں تو گھروں میں جا کر بیٹھیں۔ چیف الیکشن کمشنر کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت میں جو لوگ لگائے جا رہے ہیں یہ عارضی ہیں، بادشاہی سدا نہیں رہتی۔ ہم تب تک آپ کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے جب تک قرار واقعی سزا نہ دے دیں۔ الیکشن کمشنر، الیکشن کمیشن کے ممبران، ان کے خاندانوں کو تنبیہہ کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ ہوا تو آپ واپس یہ زیادتیوں کا سلسلہ ان پر کرنا پڑے گا۔
اصل بات تو یہ ہے کہ رات کے اندھیرے میں ہونا کچھ تھا مگر صبح کے اجالے میں ہو کچھ اور گیا۔ کہانی مختصر سی یہ ہے کہ منگل کو چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے خدشات کے پیش نظر پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اور کارکنان کی بڑی تعداد رات گئے زمان پارک کے باہر جمع ہو گئی۔ فواد چودھری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان زمان پارک میں موجود ہیں، گرفتار کرکے دکھائیں۔ عمران خان کو گرفتار کرنا ایک سازش ہے، ہماری شرافت کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ بس پھر راتوں رات اسلام آباد میں مقدمہ درج اور صبح گرفتار۔ عوام کے لئے کوئی حیرانی کی بات نہیں، سیاسی گرفتاریاں تو ایسی ہی ہوتی ہیں۔
فواد چودھری نے سیاست کا آغاز ہی ملک کے سب سے اعلیٰ ادارے کی زیر نگرانی کیا جس سے ان کی سیاست میں دانائی اور ہوشیاری کا عنصر نظر آتا ہے۔ ان کے سیاسی سفر پر ایک نظر ڈالی جائے تو عام انتخابات 2002 میں پی پی 25 جہلم سے بطور آزاد امیدوارحصہ لیا مگر ناکام رہے۔ جنوری 2012 میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کے میڈیا کوآرڈی نیٹر کے عہدے سے استعفیٰ دے کر پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے۔ اپریل 2012 میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں خصوصی معاون برائے سیاسی معاملات مقرر کیا۔ 2013 کے عام انتخابات میں این اے 63 جہلم سے ق لیگ کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔ جون 2016 میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ 2016 ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا مگر ناکام رہے۔ 2018 کے جنرل الیکشن میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔ اتنی جدوجہد کے بعد 2018 میں وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات کا عہدہ ملا۔ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ چودھری افتخار حسین اور سابق وفاقی وزیر چودھری شہباز حسین کے بھتیجے ہیں۔
سیاست ہے کیا اور کیسے کی جاتی ہے؟ اس کی تربیت انہوں نے دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر کے حاصل کی۔ پہلے جنرل پرویز مشرف، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ق اور اب تحریک انصاف سے ہدایات لے رہے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ درجے کے سیاست دانوں کے ساتھ کام کرنے کا فائدہ کمرہ عدالت میں اس وقت ہوا جب انہوں نے معزز جج کے سامنے بیان دیا کہ وہ جو بولتے ہیں 'وہ جماعت کی پالیسی ہوتی ہے' اور ان کے خلاف کوئی مقدمہ بنتا ہی نہیں ہے۔ اگر یہ جماعت کی پالیسی ہے تو گرفتار تو پھر جماعت کے سرپرست اعلیٰ کو ہونا چاہئیے تھا۔ سیاسی گرفتاری ایک سیاست دان کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ نہیں، عام عوام کو اس بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں۔ عوام یہ سوچے کہ دو وقت کی روٹی کے لئے پیسے کیسے کمانے ہیں۔