بلوچ مارچ کو کاؤنٹر کرنے پر تلی ریاست کا ہر عمل، خواہ وہ اسلام آباد کی یخ بستہ سردی میں لاٹھی چارج ہو، من گھڑت کیمپ لگانا ہو، درجنوں ایف آئی آر ہوں، منتظمین کی پروفائنلگ و ہراسمنٹ ہو، اسلام آباد پریس کلب کے ذریعے کیمپ ہٹانے کی کوشش ہو، الیکٹرانک، پرنٹ و سوشل میڈیا میں مین سٹریم سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ ہولڈرز اور دیگر کے ذریعے پروپیگنڈے ہوں؛ بلوچ مارچ اسلام آباد سے واپس جا رہا ہے لیکن ہماری واپسی ہمارے شکست خوردہ اور پست حوصلے کی دلیل نہیں بلکہ ایک منظم قوم کی جانب سے بہادری سے چلائی گئی ایک کامیاب تحریک کا استعارہ ہے۔
ریاست کا ہر عمل ایک قوم کی سیاسی تربیت میں نمایاں پہلو رکھتا ہے۔ بلوچ سوکھی روٹی پر گزارا کر سکتا ہے، سیاسی، سماجی اور معاشی پسماندگی میں جی سکتا ہے لیکن ظلم کی بُو برداشت نہیں کرتا۔ یہ بلوچ کی انا نہیں، شان ہے۔ اس کی گواہی میں نہیں دے رہا بلکہ بلوچستان کا کوچہ کوچہ دے گا۔ موجودہ تحریک میں بلوچستان کے 50 سے زائد شہروں اور دیہاتوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ ایک ایسی دنیا جسے دنیا سے بیگانہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ظلم سے بیگانگی موت ہے۔ جو قوم ایک پہلو سے بھی مر جائے، اُسے زندہ رہنے کا کوئی جواز نہیں۔
تحریک کے وہ تمام کردار جو پنجاب کے کوٹہ سے تعلق کے باوجود اسلام آباد پریس کلب کے سامنے پولیس گردی سہتے رہے، بلوچ کے ساتھ بیٹھے رہے، میڈیا کوریج دیتے رہے، بلوچ مارچ کے شرکا کو 'ڈی پورٹ' کیے جانے کے خلاف بس کے سامنے کرسی لگا کر بیٹھے رہے، سوشل میڈیا و الیکٹرانک میڈیا میں صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے، اشعار لکھتے رہے، بلوچ بیانیہ کو سپورٹ کرتے رہے؛ سبھی ہمیں عزیر ہیں۔ بلوچ کی فطرت ہے کہ بیتی باتوں، ساتھیوں، ہمدردوں کو یاد رکھتا ہے اور اُسے نسل در نسل کہانیوں کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ بلوچ کی فطرت میں شر کرنے والوں کے لیے بھی جگہ ہے۔ وہ جو ہیں، بلوچ تاریخ میں ملام ہیں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
دنیا کو ایک ایسے بلوچستان کی تصویر دکھائی گئی جو جاہل ہے، ان پڑھ، قبائلی اور چور ہے۔ اسلام آباد میں بلوچ دھرنے پر آئے غیر بلوچ بھی اس بیانیے کو رد کرتے رہے۔ پنجاب سے کئی لوگ بلوچ کے اخلاق، سیاسی شعور اور بصیرت سے متاثر ہو کر لکھتے رہے۔ حسن مجتبیٰ نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ پر لکھا؛
وہ لڑکی لال قلندر تھی
تو یہ لڑکی مست توکلی ہے
ایسے کئی شعر، قصیدے ہمیں حفظ ہیں جو تاریخی لانگ مارچ و دھرنے کی صورت ہمیں ملے ہیں۔ ایک جنگ زدہ سماج جس کے بارے میں ریاستی بیانیہ ہے کہ سردار لڑکیوں کو پڑھنے سے روکتے ہیں، اُسی سماج سے بانک کریمہ جنم لیتی ہے۔ سمّی، گُل بی بی، ماہ رنگ، حانی گل و فرزانہ مجید جیسے کردار مردوں کو لیڈ کرتے ہیں اور سماج کا ایک بھی فرد اس پر اعتراض نہیں کرتا۔ کیوں؟ اگر ایسا ہوتا تو دو ماہ کی ایک تحریک ہزار سالہ بلوچ نفسیات و فطرت کو انچ بھر بھی متاثر نہ کر پاتی۔ یہ تحریک بلوچ کی نفسیات کے خلاف نہیں بلکہ مجموعی نفسیات کی عکاسی ہے۔
اسلام آباد سے نا امیدی اپنی قربانیوں سے دستبرداری بھی نہیں۔ روز اوّل سے بلوچ مارچ مظلوموں خواہ وہ پنجابی ہوں، سندھی یا پھر پشتون، انہیں یکجا کرنے کے لیے شروع ہوا تھا۔ ہمارا ایمان ہے کہ بلوچ ارادے سے زیادہ حاصل کر گیا۔
ایک سندھی کی اجرک، پشتون کی چادر، گلگت کی ٹوپی، اسلام آباد کے باشندوں کی چائے، سُوپ، بستر، لکڑی، وکلا و ڈاکٹروں کی سروسز اور مہمان نوازی سبھی ہمیں یاد رہیں گے۔
ایک وقت تھا جب مصری خان کھیتران سوشلسٹ اتحاد میں شرکت کرنے جاتا تھا۔ آج مصری خان کے فرزندان اپنی مزاحمت سے مظلوم پیپلز کانفرنس کر چکے ہیں۔ مزاحمت ہماری وراثت ہے جو مختلف ادوار میں لیڈرشپ کی تبدیلی کے عمل سے گزر کر ہر عہد میں مزید توانا ہوتی گئی ہے۔
واجہ خیر بخش نے ہمیں باور کرایا ہے کہ نا امیدی موت ہے۔ ہم آئے روز خود کو باور کرا رہے ہیں کہ ہم زندہ قوم ہیں۔ ہمارے لیے موت ہماری مزاحمت کے غروبِ آفتاب تک اٹل نہیں اور غروبِ آفتاب تبھی آئے گا جب طلوعِ آفتاب سے ہماری آگہی ہو گی۔
اس بات میں کوئی قباحت نہیں کہ مقتدرہ کا اسلام آباد بلوچ کے لیے اسلام رہا ہے اور نا ہی آباد۔ شاید ہی ہمارے اور اسلام آباد کے مابین مذہب کے معنی و مفہوم متبادل ہوں لیکن جو اسلام بلوچ نے اسلام آباد میں دیکھا، ہماری خواہش ہے کوئی اور مظلوم نہ دیکھے۔ ہماری کاوش ہے مساجد اور عبادت گاہ میں عبادت گزار اجارہ داری کی بھینٹ نہ چڑھ جائے اور اُسے قومی بنیاد پر عبادت گاہ کی صف میں کھڑے ہونے یا نہ ہونے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔