2018 کے الیکشن میں لوگوں کی دلی مراد پوری ہوئی کہ چور لٹیروں کی حکومت سے جان چھوٹی۔ اب اس ملک کی باگ دوڑ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آ گئی ہے جس نے عوامی اجتماع سے ایسے مسائل پر بات کی ہے کہ ہر شخص یہ سمجھنے لگا ہے کہ ان مسائل کو حل صرف یہی جماعت ہی کر سکتی ہے۔ عوامی منشور کی حامل یہ پارٹی جو سٹیج پہ کھڑے ہو کر یہ دعویٰ کرتی نظر آتی تھی کہ اگر ملک میں مہنگائی ہو جائے تو حکمران پاجی ہو تا ہے۔ اگر بجلی کے بل آپ کی ماہانہ آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہڑپ کر جائیں تو سمجھ لیں آپ کا حکمران چور ہے۔ اس لئے اس ملک کو صادق امین کی ضرورت ہے جو عوام کی فلاح کے بارے پوری دیانت سے سوچے۔
پاکستان کی چالیس فیصد سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ وزیراعظم اور اسکی کابینہ تین سال سے قوم کو سبز باغ دکھانے کے سوا کچھ نہیں کر سکی۔ اشیائے خورد نوش جیسے چینی، آٹا، گھی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ صورتحال کو اگر 2018 کے تناظر میں دیکھا جائے تو شرح مہنگائی اس وقت 3.93 فیصد تھی۔ جب کہ آج یہی شرح اس دور سے دو سے تین گنا زیادہ ہے۔ وہ دور نون لیگ کا دور تھا۔ جب الیکشن کے بعد اقتدار پی ٹی آئی کو منتقل ہوا تو پہلے بجٹ (19-2018) میں مہنگائی کا ہدف 6.5 فیصد رکھا گیا۔ جبکہ مہنگائی کی شرح 6.9 فیصد رہی۔ اسی طرح سال 20-2019 کے بجٹ میں مہنگائی کا ہدف 6.5 فیصد رکھا گیا جو بڑھ کر 11.5 فیصد پر پہنچ گیا۔ حالیہ دنوں میں یعنی مئی 2021 میں ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق ملک میں مہنگائی کنٹرول سے باہر ہے۔ اس رپورٹ کی رو سے گندم 30 فیصد مہنگی ہوئی ہے۔ انڈے 55 فیصد، چکن ساٹھ فیصد اور آٹے کے نرخ میں 26.5 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہاں تک کہ مصالحہ جات اور گھی بالترتیب 86.7 اور 22 فیصد مہنگے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ زندگی بچانے والی کئی ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
کشف فاؤنڈیشن کی رپورٹ جو چند ماہ پہلے سامنے آئی ہے، اس نے مہنگائی نہ ہونے کے حکومتی دعوؤں کا پول کھول دیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اپریل 2020 سے اپریل 2021 تک ایک کم آمدنی والے گھرانے کی آمدنی میں 17 فیصد کمی آئی ہے۔ جبکہ 25 فیصد اسکے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ عام آدمی جو اپریل 2020 میں 30 فیصد رقم اشیائے خورد نوش کی خرید پر صرف کرتا تھا۔ اب اپریل 2021 میں وہ 46 فیصد بجٹ خرچ کرتا ہے۔ باقی ضروریات زندگی جیسے بجلی کے بلز، دوائیوں کی خرید سکول کالجز کی بھاری فیسز اور زندگی کی گاڑی چلانے کیلئے دیگر لوازمات کی ایک لمبی فہرست ہے جس کا روز مرہ کی بنیاد پر عام آدمی کو سامنا ہے۔ سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کی رپورٹ جو 29 دسمبر 2020 کو شائع ہوئی تھی اسکے مطابق جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے سے لے کر اب تک ایک مزدور کی اجرت میں 8 سے 10 فیصد کمی آئی ہے۔ 2008 سے لیکر 2018 تک جس مزدور کی آمدنی ہمیشہ سے بڑھتی رہی ہے وہ اس پاک صاف حکومت میں کم ہو کر رہ گئی ہے۔ اگر نون لیگ کے تین سالوں کی کارکردگی دیکھی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس جماعت نے کبھی بھی اپنی غریب عوام سے روگردانی نہیں کی۔ جبکہ تحریک انصاف کی حکومت عام آدمی سے اتنی دور زندگی بسر کر رہی جسے دیکھ کر فرعون اور بنی اسرائیل کی مظلومیت ذہن میں اس طرح چھا جاتی ہے جیسے آج بھی میں اپنے بچپن کی طرح قصص الانبیاء میں فرعون اور موسیٰ کا قصہ پڑھ رہا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ آج کے فرعون سے نجات دلانے کے لئے ابھی تک موسیٰ کا ظہور نہیں ہوا۔ اب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھنے سے جو اثرات عام آدمی کی زندگی پر مرتب ہونے جا رہے ہیں ان کو سمجھنے سے یہ حکومت قاصر نظر آتی ہے۔
کچھ دن پہلے پیٹرول اور اشیائے خورد نوش کے مزید مہنگا ہونے سے جو ایک دم ہڑ بونگ مچی ہے۔ اسی کو لے کر فواد چوہدری اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے یہ سنہرا بیان جاری کرتے نظر آئے ہیں کہ ملک میں اگر مہنگائی بڑھی ہے تو قوت خرید میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ اوپر دیے گئے اعداد و شمار تو کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اس ملک کے وزیر اعظم نے ایک انتہائی اندہ ناک بیان کچھ عرصہ پہلے جاری کیا تھا جسے سن کر ہر آنکھ رو پڑی تھی کہ ملک کا وزیر اعظم اتنا لاچار ہے کہ دو لاکھ جیسی کم رقم میں اسکا گزارا مشکل سے ہوتا ہے۔ جبکہ اسکی حکومت اشیائے خورد نوش جیسے چینی، آٹا، گھی اور چائے کے نرخوں میں اضافہ کر کے ایک عام آدمی کو کیسے سترہ سے بیس ہزار میں گزارہ کرنے پر مجبور کر رہی ہے ۔ وزیر موصوف سے عوام ادب سے ملتمس ہے کہ وہ ازراہ کرم بتائیں کہ وہ کون سے لوگ ہیں جنکی قوت خرید میں اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ ملک کے وزیر اعظم کی بھی اتنی حیثیت نہیں کہ وہ دو لاکھ روپے ماہانہ کما کر بھی اپنی قوت خرید میں اضافہ کر سکے۔
کرونا کی عالمی وبا کے دوران اس مہنگائی میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ عام آدمی اپنی زندگی خود ختم کرنے میں راحت محسوس کرنے لگا ہے۔ پاکستان میں اس وبا کے دوران دوسرے ترقی پذیر ممالک جیسے ہندوستان بنگلہ دیش کی نسبت مہنگائی کافی حد تک بڑھی ہے۔ یہ ممالک بھی لاک ڈاؤن جیسی سخت صورتحال سے دو چار تھے مگر بھلا ہو انکی کابینہ کا جنہوں نے ایسے کڑے وقتوں میں بھی اپنی عوام کو ایک مضبوط سہارا مہیا کیے رکھا۔ غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور لاک ڈاؤن نے ملکر پاکستانی قوم کا جو حشر کیا ہے وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ موجودہ حکومت کبھی دل سے اپنا محاسبہ کرے کہ وہ جن وعدوں اور دعوؤں کی کی گود میں بیٹھ کر عوامی اکثریت سے اقتدار میں آئی ہے۔ کیا اس نے عوام کی صحیح معنوں میں ترجمانی کی ہے۔ دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ٹھہراتے یہ لوگ اس قدر غافل ہو چکے ہیں کہ انھیں اندازہ ہی نہیں لوگ اب ان پر سر راہ گالیوں کی ایسی تسبیح پڑھتے نظر آتے ہیں جنھیں سن کر ہر ذی شعور شخص کے کان لال ہو جاتے ہیں۔
کیا اقتدار یہی ہے کہ پوری ڈھٹائی سے عوامی جلسوں میں آج بھی خود کو پوتر ثابت کرنے کے لئے دوسروں کو گالیاں دے کر عوام کو بے وقوف بنائے چل دینا ہے۔ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے والے وزیر اعظم نے ایک جلسے کے دوران یہاں تک بیان داغ دیا ہے کہ انکی حکومت میں پاکستان ہر سال بہتر سے بہتر ہوتا جائے گا۔ مزید صاحب بہادر یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگلے ہمارے دور کے پانچ سالوں میں ملک اتنا اوپر جائے گا کہ کوئی بھی پاکستانی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ اب اللہ ہی جانے ملک اوپر جائے گا یا عام آدمی۔ لیکن یہ بات تو طے ہے موجودہ حکومت جس طرح غریب آدمی کو نظر انداز کر رہی ہے اس لحاظ سے غریب اوپر ضرور جائے گا۔ باقی اس ملک میں بچ جانے والے بیوروکریٹس اور سرمایہ دار وہ اس ملک کو اتنا اوپر لے جائیں گے کہ عوام عالم بالا میں بیٹھ کر اپنے ملک کی ترقی دیکھ کر حظ اٹھایا کرے گی۔