فرخ سہیل گوئندی کا سفر نامہ ، میں ہوں جہاں گرد، اردو زبان وادب کی کلاسیکل روایت کا تسلسل ہے، فرخ سہیل گوئندی نے تین ممالک ایران، ترکی اور بلغاریہ کا سفر 1983 میں کیا تھا مگر اس کو قلمبند اب کیا۔ اس سارے عمل میں 39 سال کا عرصہ ہے، اب دروان سفر ضرور انہوں نے کسی ڈائری میں نوٹس لئے ہوں گے جو اب تک سنبھال کر رکھے اور انکو قلمبند کیا ہے، یقیناً یہ بہت اچھی بات ہے۔
سفر نامہ لکھتے ہوئے واقعات کو تھوڑا بہت فکشن بھی بنانا پڑتا ہے اور اگر ان مقامات کی تاریخ نگاری بھی ساتھ ساتھ کرتے جائیں جہاں آپ گئے ہیں تو سونے پہ سہاگا ہو جاتا ہے۔ یہی کچھ گوئندی صاحب نے کیا، انہوں نے سیاحت میں تھوڑا فکشن اور تاریخ کا بھرپور تڑکا لگایا ہے، جس سے قاری کی دلچسپی کتاب میں برقرار رہتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ' میں ہوں جہاں گرد' قاری کو دوران مطالعہ اپنے حصار میں رکھتا ہے، تاریخ فرخ سہیل گوئندی کا پسندیدہ موضوع ہے جس کا اس سفر نامہ میں جابجا اظہار کیا گیا ہے۔ سفر نامے کی سب سے دلچسپ بات کا یہ ہے کہ ان کو سرمایہ داری نظام کے خلاف ایک مزاحمت کے طور پر شاہد پہلی بار کسی نے پیش کیا۔
سرمایہ دارانہ نظام انسان کو مالا مال تو کرتا ہے مگر اسکے اندر کا سکون اس سے چھین لیتا ہے، ہپیی اسی سکون کی تلاش میں، ہرے راما ہرے کرشن ،گاتا مزاحمت کرتا ہے، سفر نامے میں بجا طور پر محسوس ہوتا ہے کہ گوئندی صاحب کے اندر کا پنجابی انکے پاکستانی ہونے پر حاوی ہو جاتا ہے۔
اپنے صوبے سے محبت اچھی بات ہے مگر سب سے پہلے اپنا ملک ہوتا ہے، پاکستان ہی ہماری پہچان ہے، کوئی بھی صوبہ ہماری شناخت نہیں ہے، سفر نامے میں رومانس کی کمی ہے، گوئندی صاحب کو تینوں ممالک میں خوبصورت لڑکیوں سے واسطہ پڑتا ہے مگر ان سب سے بچ کر وہ پتلی گلی سے نکل جاتے جبکہ اس وقت آتش بھرپور جوان تھا۔
لہذا کہیں نہ کہیں تو انہیں کسی سے رومانس کرنا چاہیے تھا، خیر یہ انکی مرضی ہے۔ سفر نامے میں جنرل ضیاء الحق سے نفرت اور ذوالفقار علی بھٹو سے محبت گوئندی صاحب کی تحریر میں نظر آتی ہے، یہ محبت اور نفرت شاید ان کے خون میں رچ بس گئی ہے۔ حرف آخر ' میں ہوں جہاں گرد' اردو زبان وادب کی کلاسیکل روایت میں ایک شاندار اضافہ ہے، قارئین کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔