چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے واضح کیا ہے کہ فریقین ہمارے سامنے وہ نقطہ نہیں رکھ سکے جس کی بنیاد پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ ہمارے سامنے فل کورٹ کی تشکیل کے لئے کوئی قانونی جواز پیش نہیں کیا گیا۔
تفصیل کے مطابق سپریم کورٹ میں ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ سے متعلق کیس کی سماعت شروع ہوئی تو حکمران اتحاد کے وکلا فاروق ایچ نائیک اور عرفان قادر روسٹرم پر آئے اور معزز عدالت سے کہا کہ ہمیں عدالتی کارروائی کا حصہ نہ بننے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے فل کورٹ کی تشکیل کے لئے کوئی قانونی جواز پیش نہیں کیا گیا۔ فریقین ہمارے سامنے وہ نقطہ نہیں رکھ سکے جس کی بنیاد پر فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق پارلیمانی پارٹی نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ پارٹی ہیڈ پالیسی سے انحراف پر ریفرنس بھیج سکتا ہے۔ ہم سیاسی جماعتوں کے وکلاء سے کہنا چاہتے ہیں کہ اس سوال کیلئے فل کورٹ نہیں بنایا جاسکتا۔ ہماری نظر میں فل کورٹ کی تشکیل تاخیری حربہ ہے۔ اس کیس کو جلد مکمل کرنے کو ترجیح دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ہم کیس کے میرٹس پر بات کریں گے۔ عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل کرنے کے حوالے سے دلائل دیے گئے۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ کیس میں فل کورٹ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ فریقین کے وکلا کو بتایا تھا کہ آئین گورننس میں رکاوٹ کی اجازت نہیں دیتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صدر مملکت کی سربراہی میں 1988ء میں نگران کابینہ سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دی تھی۔ عدالت کا موقف تھا کہ وزیراعظم کے بغیر کابینہ نہیں چل سکتی۔ فل کورٹ کی تشکیل کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ستمبر کے دوسرے ہفتے سے پہلے ججز دستیاب نہیں ہیں۔ ہم اس کیس کو جلد مکمل کرنے کو ترجیح دیں گے۔ فل کورٹ بنانا کیس کو غیر ضروری التوا کا شکار کرنے کے مترادف ہے۔ فل کورٹ بنتا تو معاملہ ستمبر تک چلا جاتا کیونکہ عدالتی تعطیلات چل رہی ہیں۔ گورننس اور بحران کے حل کیلئے جلدی کیس نمٹانا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے کے مقدمہ میں پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کا کوئی ایشو نہیں تھا۔ اس کیس کے میرٹ پر قانونی نکات پر معاونت درکار ہوگی۔ عدالت میں صرف پارٹی سربراہ کی ہدایات پر عمل کرنے کے حوالے سے دلائل دیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے 8 ججوں کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔ آرٹیکل 63 اے سے متعلق 8 ججز کا فیصلہ اکثریتی نہیں ہے۔ جس کیس میں 8 ججز نے فیصلہ دیا، وہ 17 رکنی بنچ تھا۔ آرٹیکل 63 سے پر فیصلہ 9 رکنی ہوتا تو اکثریتی کہلاتا۔
انہوں نے کہا کہ فل کورٹ بنچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ آرٹیکل 63 اے کیس میں ہدایات کے معاملے پر کسی وکیل نے کوئی دلیل نہیں دی تھی۔ عدالت کو پارٹی سربراہ کی ہدایات یا پارلیمنٹری پارٹی ڈائریکشنز پر معاونت درکار ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل علی ظفر کو ہدایت کی کہ قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کریں یا پھر ہم اس بنچ سے الگ ہو جائیں۔ جو دوست مجھے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اپنے کام کو عبادت کا درجہ دیتا ہوں۔