ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کالعدم ، چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ قرار دیدیا گیا

03:56 PM, 26 Jul, 2022

نیا دور
سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب قرار دیدیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ معذرت چاہتے ہیں ہم نے کافی زیادہ وقت لے لیا۔ ہم نے ایک مختصر فیصلہ لکھا ہے۔ عدالت کا فیصلہ 12 صفحات پر مشتمل ہے۔ عدالت نے درخواست منظور کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دیدی ہے۔

چیف جسٹس نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ چیف سیکرٹری پنجاب وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کا نوٹیفکیشن جاری کریں۔ گورنر پنجاب آج رات ساڑھے گیارہ بجے وزیراعلیٰ سے حلف لیں۔ حمزہ شہباز نے جو بھی کام قانونی کئے، وہ برقرار رہیں گے۔ تاہم معاون خصوصی اور دیگر عہدے غیر قانونی ہیں۔ معاون خصوصی اور دیگر عہدے بھی فوری طور پر چھوڑ دیں۔ عدالت نے تمام فریقین کو فیصلے کی کاپی فی الفور پہنچانے کی ہدایت کردی۔

تفصیل کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے گذشتہ روز فل کورٹ بنچ کے لئے پی ڈی ایم کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ آج سپریم کورٹ کے بنچ نے دوبارہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے فیصلے کیخلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔

پی ڈی ایم وکلا کا مقدمے کی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا اعلان

سماعت شروع ہوئی تو ڈپٹی سپیکر کے وکیل عرفان قادر نے کارروائی میں مزید حصہ نہ لینے کا اعلان کیا اور کہا کہ ہم فل بنچ نہ بنانے کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کریں گے۔ ان کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بھی سپریم کورٹ کا حصہ نہ بننے کا اعلان کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے فیصلے سے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا۔

ہمیں فل کورٹ بنانے پر ایک بھی قانونی نقطہ نہیں بتایا گیا: چیف جسٹس

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا فاروق ایچ نائیک سے کہنا تھا کہ ہم نے تمام فریقین کو قانونی نقطے پر دلائل کے لیے وقت دیا لیکن عدالت کو فل کورٹ بنچ کی تشکیل پر ایک بھی قانونی نقطہ نہیں بتایا گیا۔ آپ وکلا نے ہم سے وقت مانگا تھا، اس لئے گذشتہ روز سماعت کو ملتوی کیا گیا تھا، اب یہاں عدالت میں موجود رہ کر کارروائی دیکھیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں ابھی تک کوئی بھی قانونی جواب نہیں دیا گیا۔ سوال تھا کہ کیا کسی سیاسی جماعت کا سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات جاری کر سکتا ہے یا نہیں؟ قانون کہتا ہے کہ فیصلہ پارلیمانی پارٹی نے کرنا ہوتا ہے جبکہ سربراہ پالیسی سے منحرف ہونے پر ریفرنس بھیج سکتا ہے۔ اس سوال کیلئے فل کورٹ بنچ کی تشکیل نہیں کی جا سکتی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا معاملہ جلد از جلد نمٹانا چاہتے ہیں۔ چیف ایگزیکٹو ہی کابینہ کا سربراہ ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے 1998ء میں نگران کیبنٹ کو معطل کردیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ محض تاخیری حربے ہیں۔ ہم اس معاملے کو یوں طول نہیں دے سکتے۔ فل کورٹ کی تشکیل ستمبر کے دوسرے ہفتے تک ممکن نہیں ہے۔ ، دلائل میں فل کورٹ کا کہا گیا لیکن فل کورٹ کے نکتے پر قائل نہ ہوسکے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں مزید تاخیری حربے برداشت نہیں کریں گے۔ اس کیس کا فیصلہ نہ ہونے کے باعث ایک صوبے میں بحران ہے۔ اب اس کیس کے میرٹس پر دلائل سنیں گے۔ ہمیں اس معاملے پر معاونت درکار ہے۔ 18ویں ترمیم اس کیس سے مختلف ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے اٹھارہویں ترمیم میں آبزرویشن دی تھی کہ ووٹ پارٹی سربراہ کی ہدایات پر دیا جاتا ہے۔ غلط طور پر آئین کو سمجھنے کا مقصد ہے کہ آئین کو درست انداز میں نہیں سمجھا گیا۔ اگر کسی نے کچھ غلط سمجھا تو اسے درست کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تشریح کے وقت سوال صرف منحرف ہونے کے نتائج کا تھا۔ ، آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا۔ وکلا نے دلائل کے دوران اکیسویں ترمیم کیس کا حوالہ دیا گیا۔ اس ترمیم والے فیصلے میں آبزرویشن ہے کہ پارٹی سربراہ ووٹ دینے کی ہدایت کر سکتا ہے۔ کیا 17 میں سے آٹھ ججوں کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہو سکتی ہے؟ فل کورٹ بنچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ عدالت کے سامنے آٹھ ججوں کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔ آرٹیکل 63 اے سے متعلقیہ فیصلہ اکثریتی نہیں ہے، ہاں اگر 9 رکنی فیصلہ ہوتا تو اکثریتی کہلاتا۔

میرا کام، میری عبادت: چیف جسٹس کے ریمارکس

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میں اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتا ہوں۔ عدالت کا بائیکاٹ کرنے والے تھوڑا دل بڑا کریں اور کارروائی سنیں۔ انہوں نے اتنی گریس دکھائی ہے کہ بیٹھ کر کارروائی سن رہے ہیں۔ انہوں نے بیرسٹر علی ظفر کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کی قانونی سوالوں پر معاونت کریں جبکہ دوسرا راستہ یہ بچتا ہے کہ ہم اس بنچ سے ہی الگ ہو جائیں۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے تفصیل کیساتھ تمام وکلا کے دلائل کو سنا۔ یہاں معاملہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا نہیں ہے۔ سپریم کورٹ تو پہلے ہی کی تشریح کر چکی ہے۔ 18ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کو منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے۔ یہاں معاملہ صرف پارٹی سربراہ کی ہدایت کا ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی سپریم کورٹ سے گزارشات

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میں سپریم کورٹ کے سامنے کچھ عرض گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے ان سے پوچھا کہ کیا کہ کیا حکومت، حکمران اتحاد کے فیصلے سے الگ ہو گئی ہے؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آرٹیکل 27 اے کے تحت عدالت کی معاونت کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سب کو معاونت کی کھلی دعوت ہے۔ اس لئے کہ فیصلے میں کوئی غلطی نہ ہو جائے۔

پارٹی سربراہ کی ہدایات بروقت آنی چاہیے: وکیل پی ٹی آئی

تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کی ہدایت وقت پر آنی چاہیے۔ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے کہا کے مجھے مسلم لیگ ن کے سربراہ چودھری شجاعت کا خط موصول ہوا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ چودھری شجاعت کے وکیل نے کہا کہ تمام پارٹی ممبران کو خط ارسال کیا گیا تھا۔ ان کو پارٹی سربراہ کی ہدایات واضح تھیں۔

پی ٹی آئی وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی کارروائی سب کے سامنے ہے۔ عدالت عظمیٰ کو پتا ہے کہ ووٹنگ کیسے ہوئی۔ پارٹیوں کے سربراہ کیسے لاہور میں جمع ہوئے یہ سب کے سامنے ہے۔ وفاقی حکومت تمام ذرائع بروئے کار لائی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ان سے استفسار کیا کہ کیا وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کی ووٹنگ سے قبل خط پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پڑھا گیا تھا؟ فاروق ایچ نائیک صاحبآ، اگر عدالت سننے کیلئے تیار ہے، کچھ بہتری آ سکتی ہے۔ اس پر فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ان مقدمات میں ہم پارٹی پالیسی کے پابند ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مخالف فریقین کیس سن رہے ہیں لیکن دلائل نہیں دے رہے۔ ان کی حیثیت اس وقت ایسے ہی ہے جیسے یو این او میں مبصر ممالک کی ہوتی ہے۔ ہم بہتر طریقے سے فیصلے پر پہنچ سکتے ہیں اگر تمام فریقین معاونت کریں۔ بائیکاٹ کرنے والے اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں تو سب کیلئے بہتر ہوگا۔

ووٹ کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی نے کرنا ہے: بیرسٹر علی ظفر

بیرسٹر علی ظفر کا معزز عدالت کے روبرو اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ ووٹ کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی نے کرنا ہے۔ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات دے سکتا ہے لیکن ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا۔ تاہم پارٹی سربراہ کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے اس پر ریمارکس دیئے کہ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ووٹنگ کے لیے ہدایات جاری کرتا ہے۔ اگرچہ پارٹی سربراہ کا اہم کردار ہے کیونکہ تمام تر اختیارات اس کے ذریعے ہی آتے ہیں۔

الیکشن کمیشن آرٹیکل 63 اے سے منافی کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا: جسٹس اعجازالاحسن

جسٹس اعجازالاحسن کا کیس کی سماعت کے موقع پر اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ ایک فریق کہہ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ ختم ہو تو پھر حمزہ شہباز کے ووٹ 197 ووٹ پر آ جائیں گے۔ جبکہ دوسرے فریق کا یہ کیس ہے کہ پی ٹی آئی ڈی سیٹ کیس میں یہ الیکشن کمیشن کے سامنے پارٹی سربراہ کا سوال تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اب اعتراض اٹھایا جاسکتا ہے؟ سپریم کورٹ نے کہا الیکشن ہوگا۔ سپریم کورٹ نے یکم جولائی کو اتفاق رائے سے فیصلہ دیا تھا۔

عائشہ گلالئی کے کیس کا حوالہ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ عدالت عائشہ گلالئی کے کیس میں ارٹی سربراہ کی ہدایات کا طریقہ کار دے چکی ہے۔ اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ اس کیس کا فیصلہ تو آپ کے موکل کیخلاف جاتا ہے جس پر وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ عائشہ گلالئی کیس میں بھی منحرف ہونے کا سوال سامنے آیا تھا۔ یہ کیس آئین کے عین مطابق ہے۔ عائشہ گلالئی کیس میں ارکان کو مختلف عہدوں کے لئے نامزد کرنے کا معاملہ تھا۔ اس کیس میں قرار دیا گیا کہ پارٹی سربراہ یا اس کا نامزد نمائندہ نااہلی ریفرنس بھیج سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فریق دفاع نے الیکشن کمیشن کے منحرف ارکان کے خلاف فیصلے کا حوالہ دیا ہے جس پر وکیل نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کا ذکر نہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ عدالت میں پڑھ کر سنائی اور کہا کہ اس کیس میں فل بینچ اور درخواست مسترد کرنے کا مطالبہ کیا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں تاثر دیا گیا کہ پارٹی سربراہ زیادہ اہم ہے، ڈپٹی سپیکر نے جواب میں رولنگ کی بنیاد الیکشن کمیشن کا حکم قرار دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی

خیال رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف فل کورٹ بنانے کیلئے حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہیہ ہی بنچ کیس کی سماعت کرے گا۔

گذشتہ روز کیس کی سماعت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف کیس پر مزید قانونی وضاحت کی ضرورت ہے۔ دلائل سن کر فیصلہ کریں گے کہ فل کورٹ بنانا ہے یا نہیں۔

اس سے قبل کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم نے معاملے کا جائزہ لیا۔ وکلا میرٹ پر دلائل دینا شروع کریں۔ ابھی ہم سب کو سنیں گے،اس کے بعد دیکھیں گے کہ فل کورٹ بنانا ہے یا نہیں۔ اس پر ایڈووکیٹ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ میری ہدایات فل کورٹ کی تھیں، کیا میں مزید بات کرسکتا ہوں یا نہیں؟ اس پر ہدایات لینے کا وقت دیا جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے ان کو اجازت دی کہ آپ اپنی ہدایات لے لیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی کہا کہ فل کورٹ کے حوالے سے ہم نے سب کے دلائل سننے ہیں۔ اس اہم معاملے پر ہم آپ سب کو مزید سننا چاہتے ہیں۔ میرٹ پر سننے کے بعد فیصلہ کرینگے کہ فل کورٹ بنے گا یا نہیں۔

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز کی جانب سے یہ واضح ہدایات ہیں کہ فل کورٹ بنے۔ چیف جسٹس نظرثانی کی درخواست سماعت کیلئے رکھتے ہیں تو آپ کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ہم اس لئے اٹھ کر گئے تھے کہ اس پر سوچیں کیونکہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے۔ یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی کا بھی ہے۔

سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی کے دلائل

کیس کی سماعت کے آغاز پر سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میں عدالت سے کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر چیف جسٹس نے ان کیساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کافی سابق صدور کمرہ عدالت میں موجود ہیں، بتائیں آپ نے کہا کہنا ہے۔

لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ اس وقت درجہ حرارت بڑا ہائی ہے۔ آرٹیکل 63 اے کی نظر ثانی درخواستیں زیر التوا ہیں۔ آئینی بحران سے گریز کیلئے فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ بحران گہرے ہوتے جا رہے ہیں، پورا سسٹم دائو پر لگا ہوا ہے۔ سسٹم کا حصہ عدلیہ اور پارلیمان بھی ہیں۔

معزز ججوں نے عرفان قادر کو جھاڑ پلا دی

ڈپٹی سپیکر کے وکیل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ میرے ذہن میں کافی ابہام ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میرے مطابق ہمارے فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ آپ عدالت کی بات پہلے سن لیں۔ اگر آپ نے ہماری بات نہیں سننی تو کرسی پر بیٹھ جائیں۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ آپ چیف جسٹس ہیں، آپ تو ہمیں ڈانٹ پلا سکتے ہیں لیکن آئین میں انسان کے وقار کا ذکر بھی ہے۔ اس کو بھی دیکھ لیں۔ عدالت تسلی رکھے ہم صرف یہاں آپ کی معاونت کیلئے آئے ہیں۔ آپ یہ مت سمجھیں ہم یہاں لڑائی کرنے آئے ہیں۔ آپ ناراض ہو گئے ہیں میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ آپ کو وکلا کو ڈانٹنے کا حق حاصل ہے۔ عدالت جتنا بھی ڈانٹ لے میں خاموش رہوں گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ہم کسی کو ڈانٹ نہیں رہے، ہم تو آپ کو محترم کہ کر مخاطب کر رہے ہیں۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ پہلے فیصلہ دینے والے ججز ہی کیس سن رہے ہیں جس وجہ سے اضطراب پایا جاتا ہے۔ عدالت ہم سے ناراض نہ ہو جو بھی سوال پوچھا جائے گا وہ بتائیں گے۔

حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان کے دلائل

حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ پارٹی پالیسی کیخلاف ووٹ مسترد ہو جائے گا، یہ ہی نقطہ ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہو سکتا ہے؟ اس پر وکیل نے کہا کہ میں نے اپنا جواب عدالت میں جمع کروا دیا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ فیصلے کے کون سے حصے پر ڈپٹی سپیکر نے انحصار کیا، اس کا بتائیں۔ وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ فیصلے کے پیراگراف تین پر ڈپٹی سپیکر نے انحصار کیا۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ 14ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا۔ آپ کا سیاسی پارٹی کے سربراہ کے بارے میں کیا قانونی دلائل ہیں۔ اس پر منصور اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے 14ویں ترمیم سے آئین میں شامل کیا گیا جبکہ 18ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے میں مزید وضاحت کی گئی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کے 8 رکنی فیصلہ کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے اصل ورژن میں دو تین زاویے ہیں۔ وکیل حمزہ شہباز کا اس پر کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 اے میں پارٹی سربراہ کا ذکر موجود ہے۔

وکیل منصور اعوان کا کہنا تھا کہ جسٹس شیخ عظمت سعید کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے۔ جسٹس منیب اختر کا اس پر کہنا تھا کہ پارٹی پالیسی میں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق دو الگ اصول ہیں۔ 18ویں ترمیم سے پہلے ارٹیکل 63 اے پارٹی سربراہ کی ہدایات کی بات کرتا تھا۔ اس کے بعد پارٹی لیڈر کو پارلیمانی پارٹی سے بدل دیا گیا۔ پہلے پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات میں ابہام تھا۔ ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کا اختیار ہے۔

اس پر وکیل حمزہ شہباز نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ ماضی کی عدالتی نظیروں کیخلاف ہے۔ سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دے۔ اگر پانچ رکنی بنچ کو لگتا ہے ماضی کا عدالتی فیصلہ غلط تھا تو فل بنچ ہی فیصلہ کر سکتا ہے۔
مزیدخبریں