انہوں نے تھوڑا سا سوشل میڈیا دیکھنے کا اشارہ کیا دے دیا ہے، اب عوام نے ٹرینڈ چلانے شروع کر دیے ہیں۔ اب جج صاحب کا حوصلہ دیکھئے کہ انہوں نے پھر بھی محسوس نہیں کیا اور اپنی انصاف کی ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف عمل ہیں۔ باقی ججز چھٹیاں منا رہے ہیں اور انہوں نے ملک ونظام انصاف کو کندھا دیا ہوا ہے۔
بات تو سیاستدانوں کی ہے کہ ان کی ساری عمر گزر گئی ہے آئین بناتے ہوئے کہ جمہوریت سیدھی ہو جائے، وہ تو ان سے ہو نہیں پائی۔ ایک طرف سے گڑھا نکالتے ہیں تو دوسری طرف پڑ جاتا ہے۔
وہ آج تک کوئی ایسا قانون ہی نہیں بنا سکے جو واضح ہو یا سپریم کورٹ کو اس کی سمجھ آ جائے۔ خواہ مخواہ کا ججوں کو بھی پریشان کیا ہوا ہے۔ وہ کسی ایک نقطے پر بڑی غور وفکر کرکے ایک فیصلہ دے چکتے ہیں تو نیا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ ان کو پھر سے غور وفکر کرنا پڑ جاتا ہے۔ ان کو سمجھ ہی نئی آتی کہ اب اس کا کیا کریں۔
اگر پہلے والے کو بحال رکھتے ہیں تو مسئلہ اور اگر نئی تشریح کرتے ہیں تو مسئلہ۔ اب وہ جج ہیں کوئی جرنیل یا سیاستدان تو نہیں کہ یوٹرن لیتے پھریں۔ اوپر سے فل کورٹ کا مطالبہ، حد ہو گئی یار۔
تو کیا یہ ممکن تھا کہ اپنے کئے ہوئے فیصلوں کو پوری کی پوری عدلیہ کے سامنے رکھ دیتے اور ان سے اس پر تبصرے سنتے رہتے اور وہ بھی آمنے سامنے ، انصاف کے سارے حساب برابر نہ ہو جاتے۔ کیا انہوں نے یہ عہدہ اس دن کے لئے حاصل کیا تھا۔ کوئی ان پر اعتماد کرے یا نہ کرے ان کو تو اپنے اوپر اعتماد ہے ناں۔ اور وہ جو کر رہے ہیں اپنے تئیں ٹھیک ہی تو کر رہے ہیں۔ انصاف کا یہ اصول اور تقاضہ بھی ہے کہ عدالتوں میں فیصلے کسی کی خوشی یا ناراضگی کے لئے نہیں کئے جاتے۔ اگر اختیارات کو استعمال ہی نہ کرنا ہو تو پھر ان کا فائدہ ہی کیا؟
پہلے تھوڑے ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔ کوئی ہم خیال کہتا ہے تو کوئی بنچ فکسر کے طعنے دیتا ہے۔ اب یہ ان کا صوابدیدی اختیار ہے اور خیال کا ایک ہونا تو اتفاق کی بات ہے جو کوئی حسن اتفاق نہیں بلکہ انصافی اتفاق ہے جس کی عوام اور سیاستدان دعائیں اور دوائیں کر رہے ہیں۔
اب فیصلہ تو فیصلہ ہی ہوتا ہے اس کو ایک کلی جز کے طور پر لیا جاتا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ لوگ اس کو سیاق وسباق میں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ اور شوکت عزیز صدیقی نے نظام انصاف کی مخبری کیا کر دی، سب کے سب عدالتوں کے پیچھے ہی پڑ گئے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ تو آج بھی بنچ کی تعیتاتی میں جلد بازی پر سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں مگر ان کی سنتا کون ہے۔ وہ تو پہلے بھی تین خط اپنے برادر ہم منصب کو لکھ چکے ہیں جو چند قدموں کے فاصلے پر مگر سوچوں میں شاید کوسوں دوری پر ہوں۔
اب یہ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ اس میں پرانی دقیانوسی والی باتیں گئیں کہ چرچ نے کیا کہا تھا یا خلفائے راشدین نے کہا ہے کہ ریاست کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتی ہے مگر ناانصافی کے ساتھ نہیں۔ کوئی واٹس ایپ گروپس کا الزام لگاتا ہے تو کوئی ٹیلی فونک رابطوں کے۔
کیا انصااف کی غرض سے مشوروں پر بھی چرچ نے یا خلفائے راشدین نے کوئی قدغن لگایا تھا۔ یہ تو اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہے کہ آپس میں یا کسی بڑے تجربہ کار سے مشورہ کر لیا جائے۔ پہلے عدالتیں تکنیکی مسائل کے لئے ماہرین کو عدالت آنے کی تکلیف دیتی تھیں اور اب سوشل میڈیا کے ذریعے سے مشورے کر لئے جاتے ہیں۔ یہ بھی کوئی اعتراض والی بات ہوئی۔
بہرحال اللہ کے رسول ﷺ کے فرمان کو تو اہمیت دینی ہی ہوگی۔ جس میں انہوں نے ججز کو تین درجوں میں رکھا ہے۔ ایک وہ جو اہل نہیں ہوتے اور منصب انصاف پر بیٹھ جاتے ہیں اور دوسرے وہ جو اہلیت تو رکھتے ہیں مگر انصاف کرنے میں غفلت کرتے ہیں اور تیسرے وہ جو اہلیت بھی رکھتے ہیں اور انصاف بھی کرتے ہیں۔
ایک اچھا گمان رکھتے ہوئے اگر دیکھیں تو ہماری اعلیٰ عدلیہ بھی کچھ اس ایک تہائی تقسیم میں تو دکھائی دے رہی ہے۔ اب کون کس درجے کا ہے اور اس کے بارے کیا وعید ہے وہ تعیناتیوں میں مدد اور عمل کرنے والوں کو زیادہ اچھا معلوم ہوگا۔ ہر کوئی اپنے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے۔
اب سیاستدان عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کرنے لگے ہیں۔ کبھی کسی سائل ومدعی نے یا مسئول علیہ اور مدعا علیہ نے بھی عدالتوں کے بائیکاٹ کئے ہیں اور وہ بھی حکومت میں شامل جماعتیں۔ حیرت کی بات ہے۔ کیا اس سے نظام انصاف اپنا فرض نبھانا چھوڑ دے گا۔
کیا ان کو ماضی بھول گیا ہے، جب یوسف رضا گیلانی کو گھر بھیج دیا گیا تھا اور نواز شریف کو نااہل کر دیا گیا تھا۔ وہ نظام عدل کو پرانی تاریخ دہرانے پر مجبور نہ کریں پہلے ہی عدالتوں میں بہت زیادہ مقدمات زیر التوا پڑے ہیں۔ بس من وعن بات کو تسلیم کرتے جائیں۔ جس کا کام اسی کو ساجھے اگر ان کو انصاف کا اتنا ہی پتہ ہے تو پھر عدالتوں میں آتے ہی کیوں ہیں۔ اپنے مسائل پارلیمان میں ہی حل کیوں نہیں کر لیتے؟
اب ان کو رشتہ داریاں اور تعلقات بھی انصاف کی راہ میں رکاوٹ لگنے لگے ہیں تو جب وہ انہی کی بنیاد پر ججوں کو تعنات کیا کرتے تھے۔ اس وقت نظام انصاف کا خیال نہیں تھا، اب اسے مکافات عمل ہی سمجھ کر برداشت کیجئے۔ کل اگر فیصلہ بائیکاٹ والوں کے حق میں آگیا تو کیا اس کو ماننے سے انکار کر دیں گے۔ مطالبات اور اعتراضات بھی ٹھوس بنیادوں پر ہونے چاہیں اور احتجاج کے پیمانے اور انداز بھی مناسب اور جائز ہی ہونے چاہیں۔
اگر فل بنچ کی درخواست خارج ہوئی ہے تو اس کے خلاف رولز کے مطابق ٹھوس شواہد کے ساتھ اپیل کی قانونی چارہ جوئی بنتی ہے وہ کرنی چاہیے نہ کے بائیکاٹ۔ پہلے بھی کچھ سیاستدان رات کو عدالت کھلنے پر اعتراض کر رہے تھے اور جب خود پر مشکل آئی تو رات کو ہی عدالت پہنچ گئے تھے اور کچھ تو دیواریں بھی پھلانگتے رہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے انصاف ڈنکے کی چوٹ پر بولے گا اور اس پرآمین کہنے والوں کی بھی کمی نہیں ہوگی۔ ویسے بھی نااہلوں کی کون سنتا ہے۔ اگر بات سننی ہی ہو تو صادق وامین لوگوں کی سننی چاہیے جو اس کی اہلیت بھی رکھتے ہوں۔