نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے عرفان قادر نے کہا کہ یہ سارے ملک کا معاملہ تھا لیکن کہہ دیا گیا کہ فل کورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ جسٹس عیسیٰ کے کیس میں سارے جج بیٹھتے ہیں اور اس کیس میں جس سے پاکستان کی بنیادیں ہل سکتی ہیں، اس میں کہا گیا کہ فل کورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے پر میری اپنی رائے یہ ہے کہ وہی عدلیہ جو ماضی میں متنازع تھی اسی کی ایک اور کڑی ہے لیکن یہ معاملہ عدلیہ کا نہیں ملک کا ہے۔ سیاستدانوں نے اس عدم استحکام کو نہ روکا تو ملک کا بہت نقصان ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کے اس فیصلے سے عجیب وغریب صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ سپریم کورٹ کے اپنے فیصلوں میں مستقل مزاجی نہیں رہی۔ میں ابھی کمنٹ نہیں کرونگا یہ فیصلہ کتنا درست ہے یا کتنا غلط؟ میں یہ تاریخ پر چھوڑتا ہوں۔
پروگرام میں شریک مہمان رضا رحمان نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو نااہل کیا گیا تھا تو بڑے احترام سے ایک وکیل ہونے کے ناطے میری رائے ہے کہ وہ غلط فیصلہ تھا، وہ چپ کرکے چلے گئے تھے، ہاں بعد میں سڑکوں میں آکر انہوں نے کہا کہ مجھے کیوں نکالا؟
شاہد میتلا کا کہنا تھا کہ کیا مسلم لیگ ن کے پاس جسٹس اعجازالحسن صاحب کی وہ ویڈیوز نہیں ہیں، جس میں اسد ملک نے کہا ہے کہ مجھ پر جسٹس اعجازالاحسن پریشر ڈالتے رہے ہیں کہ نواز شریف کو اندر کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ اس تین رکنی بنچ کی جانب سے جو فیصلے آرہے ہیں وہ پی ڈی ایم کیخلاف اور زیادہ تر عمران خان کے حق میں ہوتے ہیں۔
مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا گیا کچھ عدالتوں کے فیصلے ہیں اور کچھ تاریخ کے فیصلے ہیں۔ تاریخ کے فیصلوں کا عدالت کچھ نہیں کر سکتی۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو آپ قائل نہیں کر سکیں گے۔ لوگوں کا الجھائو دور نہیں ہوگا۔ لوگ کہیں گے عمران خان کے باغی سیٹوں سے محروم ہوں گے۔ ڈی سیٹ بھی ہوں گے چودھری شجاعت کا حکم 63 اے کے اندر نہیں آئے گا۔
پروگرام کے میزبان اور سینئر تجزیہ کار رضا رومی کا کہنا تھا کہ مجھے اس فیصلے سے کوئی حیرانگی نہیں ہوئی جس رات پٹیشن دائر کی گئی اسی وقت جج صاحبان آرڈر کرتے کہ پرویز الہٰی کامیاب ہیں اور عمران خان ایمانداری کا مجسمہ ہیں۔