حامد میر نے اپنا یہ سیاسی تجزیہ جیو نیوز کے پروگرام ''آج شاہ زیب خانزادہ'' میں ایک سوال کے جواب میں دیا۔ شاہ زیب خانزادہ نے سوال کیا تھا کہ حامد میر صاحب آپ کو لگ رہا ہے کہ کوئی نہ کوئی واضح ڈائریکشن ہے جس کی طرف ملک جا رہا ہے۔ یا ملک میں مزید سیاسی عدم استحکام ہوگا؟ چودھری پرویز الٰہی اور صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ محمود خان کے ذریعے اسمبلیاں ختم کرکے مجبور کریں گے یا پھر یہ دونوں حکومتیں بھی رکھیں گے اور یا جو فواد چودھری عندیہ دے رہے ہیں کہ اتحادیوں سے بات کرکے صدر مملکت کے ذریعے عدم اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں گے اور مرکزی حکومت گرا دیں گے؟ آخر ملک میں کیا ہونے جا رہا ہے؟
اس پر حامد میر نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں ایک بات تو پورے وثوق کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ حکومت کے اتحادی کبھی بھی پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری کی بات نہیں سنیں گے۔ کیونکہ وہ عمران خان اور ان کی حکومت کو ساڑھے تین سال بڑے اچھے طریقے سے دیکھ چکے ہیں۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے تین ججوں نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنا دیا ہے تو اب آگے کیا ہوگا؟ میرا تو یہی خیال ہے کہ چونکہ عمران خان بار بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل فوری طور پر ایک نیا الیکشن ہے لیکن حکومت نہ تو اسمبلی توڑنے کو تیار ہے اور نہ ہی قبل از وقت الیکشن کے حق میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں عمران خان پر بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہو جائے گی کیونکہ وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ ملکی مسائل صرف انتخابات کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں۔ خزانے کی چابی اب عمران خان کے پاس ہے۔ کسی نے نرم مداخلت کروانی ہے یا سخت، اسے پی ٹی آئی چیئرمین کے ذریعے ہی کروانی پڑے گی۔