عمران خان کی ناکامی کے بعد سپریم کورٹ اٹھارھویں ترمیم کو لپیٹنے میں پیش پیش ہے

07:59 PM, 26 Jul, 2022

علی وارثی
منگل کی صبح پنجاب ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر کارروائی کا آغاز ہوا تو مسلم لیگ ق کے رہنما چودھری پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر روسٹرم پر آئے اور انہوں نے دلائل کا آغاز کیا۔ پرویز الٰہی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے اس کیس میں اہم ترین درخواست گزار بھی تھے۔ بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف دور میں پارٹی سربراہ کی جگہ پارلیمانی سربراہ کا قانون آیا تھا اور اٹھارہویں ترمیم میں پرویز مشرف کے قانون کو ختم کیا گیا۔ علی ظفر کے مطابق یہ فیصلہ پارلیمانی لیڈر کا ہے کہ وہ اپنے ارکان سے کس کے حق میں ووٹ دلوانا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں کا ماننا ہے کہ اصولی طور پر پارٹی سربراہ کی بات مانی جانی چاہیے۔

یہ سوال پاکستان کی سیاست میں نیا نہیں۔ بلکہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کتنے کتنے پرانے سوال یکایک اژدھا بن کر اس ملک کی عدالتوں، سیاسی جماعتوں کے سامنے یوں منہ پھاڑے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ گویا ملک کی سیاست، اس کی جمہوریت کو کچا ہی چبا جائیں گے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، علی ظفر صاحب کے مطابق یہ پارلیمانی لیڈر کی اصطلاح کو آئین میں شامل کروایا تھا آمر جنرل پرویز مشرف نے۔ اس کے پیچھے ایک منطق تھی۔ 1999 میں مارشل لا لگانے کے بعد پرویز مشرف نے ابتداً قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک کو 'کرپٹ سیاستدانوں' سے پاک کر دیں گے۔ لیکن انہیں جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ ان کو عالمی سطح پر پاکستان کا سربراہ تب ہی تسلیم کیا جائے گا اگر یہ ملک میں جمہوریت کو کسی شکل میں بحال کریں اور جب الیکشن کروانے کی ضرورت پڑی تو باوجود تمام تر لوٹا کریسی کے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ انہیں دو ایسی سیاسی حقیقتیں نظر آئیں جن سے جان چھڑانا ان کے لئے لازمی تھا۔ نواز شریف طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں پہلے ہی نااہل ہو چکے تھے۔ بینظیر بھٹو کو ایک اور آئینی ترمیم کے ذریعے اقتدار کے کھیل سے بے دخل کر دیا گیا جس کے مطابق کوئی بھی شخص ملک میں دو مرتبہ سے زیادہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی پر پابندی بھی عائد کروا دی گئی۔ اس پابندی کے باعث پیپلز پارٹی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتی تھی۔ لہٰذا ایک نئی پارٹی تشکیل دی گئی۔ اس کا نام پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین رکھا گیا۔ اس کا سربراہ مخدوم امین فہیم کو بنایا گیا۔ مخدوم صاحب یوں تو بینظیر بھٹو شہید کے انتہائی قابلِ اعتماد ساتھیوں میں سے تھے لیکن یہ پرویز مشرف کے بھی ایک قریبی دوست تھے۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن نے چودھری نثار علی خان کو پارلیمانی پارٹی کا سربراہ بنایا۔ یہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے قریبی سمجھے جاتے تھے۔ یوں ان سیاسی جماعتوں کو پارلیمانی لیڈران کے ذریعے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔

تاہم، اصل کام پیپلز پارٹی پر کرنے کی ضرورت تھی۔ پہلے میاں اظہر اور بعد ازاں چودھری شجاعت حسین کی قیادت میں مسلم لیگ ن میں سے مسلم لیگ ق تو نکالی جا ہی چکی تھی لیکن پیپلز پارٹی کا ووٹر محترمہ کی قیادت میں متحد تھا اور اسے توڑنے میں اسٹیبلشمنٹ کو بڑی دقت پیش آ رہی تھی۔ 2002 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی سب سے زیادہ سیٹیں جیت کر پارلیمنٹ میں آئی۔ اس موقع پر لیکن ان کے جیتے ہوئے ارکان میں سے 22 کو توڑ کر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین پیٹریاٹ بنا دی گئی۔ اس دھڑے کا ایک علیحدہ پارلیمانی لیڈر مقرر کر دیا گیا اور یہ جماعت مسلم لیگ ق کے ساتھ اقتدار میں حصہ دار بھی بن گئی اور اس کے تقریباً تمام ارکان کابینہ کا حصہ بن گئے۔ 2008 انتخابات سے قبل یہ 'پیٹریاٹس' مشرف کی کنگز پارٹی مسلم لیگ ق میں ضم ہو گئے۔

لیکن یہ چالاکی ان کے کسی کام نہ آئی۔ 2002 انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن نے بھی ق لیگ کے خلاف اسی آئینی سقم کا بڑی مہارت سے استعمال کرتے ہوئے ق لیگ میں نقب لگائی اور اس میں ایک فارورڈ بلاک بنا دیا۔ ڈاکٹر طاہر جاوید اس کے 'پارلیمانی سربراہ' بن گئے۔ یہ گروپ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کو حمایت دیتا رہا جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے اتحاد سے نکالے جانے کے بعد بھی ن لیگ کی حکومت پنجاب میں برقرار رہی۔

اٹھارھویں ترمیم میں بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو ایک آمر کے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر باہر رکھنے کے لئے جو ترمیم کی گئی تھی، اسے آئین سے نکالا جائے۔ تاہم، اس کے ساتھ ساتھ تحریکِ عدم اعتماد بھی ایوان کا حق ہے، ہر حلقے کے عوامی نمائندے کو کسی بھی وقت یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حلقے کے عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے قائدِ ایوان پر عدم اعتماد کا اظہار کر سکے اور اگر ایسے نمائندوں کی تعداد پاکستان کی قومی اسمبلی کے کل ممبران کے نصف سے زیادہ ہے تو انہیں حق حاصل ہے کہ وہ وزیر اعظم کو اقتدار سے علیحدہ کر دیں۔ البتہ اگر وہ اپنی سیاسی جماعت کے احکامات سے ہٹ کر ووٹ دیتے ہیں تو ایسی صورت میں انہیں اپنے حلقے کے عوام سے دوبارہ ووٹ لینے کے لئے جانا چاہیے۔ اس حق کو محفوظ رکھنے کے لئے اٹھارھویں ترمیم میں پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ دینے کی اجازت تو دے دی گئی لیکن پارٹی سربراہ کو بھی اسے پارلیمنٹ کی سیٹ سے علیحدہ کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔





سپریم کورٹ کے 17 مئی کے مختصر فیصلے نے ارکانِ اسمبلی سے یہ اختیار چھین لیا کہ وہ کسی بھی وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ پر عدم اعتماد کا اظہار کر کے اسے ایوان کی قیادت سے برطرف کر سکیں۔ یہ آئین کی اس ترکیب کے خلاف ہے جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں جمہوریتوں میں رائج ہوتی ہے۔ اس فیصلے نے کئی ہفتوں تک ملک کے سب سے بڑے صوبے کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ چند روز سے حمزہ شہباز پر تنقید ہو رہی ہے کہ وہ پنجاب میں اپنی گورننس سے کچھ قوتوں کو متاثر نہیں کر سکے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک دن بھی پنجاب حکومت کو چلانے کے قابل نہیں ہو سکے۔ یہی چیز اس بحران کی وجہ بنی جس نے پچھلے کئی ماہ سے ملک کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

فروری 2018 میں جب سپریم کورٹ نے نواز شریف کو پارٹی کی سربراہی سے ہٹایا تھا تو اس فیصلے میں لکھا تھا کہ ان کو ہٹانا اس لئے ضروری ہے کہ پارٹی سربراہ نے بہت سے امور انجام دینے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک پارلیمانی پارٹی کی سربراہی بھی اسی فیصلے میں بیان کیا گیا تھا۔ ابھی 30 جون کو لاہور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کے ان 25 ارکان کو نااہل کیا اور ان کا ووٹ گننے سے بھی منع کر دیا جنہوں نے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا۔ اس فیصلے کی بنیاد وہ مختصر فیصلہ تھا جو جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا اور ان سے اختلاف کرنے والے ججز تھے جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل۔ جسٹس میاں خیل تو حال ہی میں ریٹائر ہو چکے ہیں لیکن اس موجودہ بنچ میں انہیں شامل نہیں کیا گیا اور صرف جسٹس بندیال، اعجاز اور منیب اختر ہی دوبارہ بیٹھے لیکن انہوں نے فیصلہ اپنے ہی پچھلے فیصلے کے الٹ دے دیا۔

فی الحال تو اس کا نقصان مسلم لیگ ن اور فائدہ عمران خان اور پرویز الٰہی کو ہوا ہے۔ لیکن اپنے اس فیصلے میں چودھری شجاعت حسین کے خط میں لکھے حکم کو مسترد کر کے پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کی جو اہمیت اور حیثیت سپریم کورٹ نے بحال کر دی ہے، اس سے ایک مرتبہ پھر آمر جنرل پرویز مشرف کا سیاسی قائدین کے اختیارات غصب کرنے کا زنگ آلود ہتھیار پاک کر کے کارآمد بنا لیا گیا ہے۔ اس کا نقصان مستقبل میں سیاسی جماعتوں اور جمہوری اداروں کو ہی ہوگا۔ افسوس کہ آئین میں اس مکروہ تبدیلی کے لئے اس وقت بھی آمر کا ساتھ عدلیہ نے ہی دیا تھا۔ اور اب بھی۔ یاد رہے کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے والوں کو اٹھارھویں ترمیم کو آئین سے نکالنے کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے۔ وہ تو اس مشن کو مکمل کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن ایک ایک کر کے اس معرکۃ الآرا ترمیم کو ریورس کرنے کا کام سپریم کورٹ سے بدستور لیا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ آئین میں ریاست کے ہر ستون کے اختیارات کا واضح طور پر تعین کیا گیا ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ کو آئین میں ترمیم کا کوئی اختیار نہیں اور نہ ہی یہ کسی آئینی شق کو از سر نو لکھنے کا اختیار رکھتی ہے کہ یہ جب چاہے کسی بھی شق کی arbitrary تشریح کر کے ملکی سیاست پر اثر انداز ہو سکے۔ یہ اختیار محض پارلیمنٹ کا ہے اور اس اصول سے انحراف اپنے اختیار سے تجاوز ہے۔ رہی بات کہ کون ووٹ ڈالنے کا اہل ہے اور کون نہیں، اس کا تعین کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے، عدلیہ کا نہیں۔
مزیدخبریں