مہناز اکبر عزیز نے اس ہولناک واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چھ سال سے کم عمر کے بچے امیر لوگوں کے بنگلوں میں گھریلو ملازم کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نامور خاندانوں کے لوگوں کا گھر میں گھریلو ملازم کے طور پر بچوں کی خدمات حاصل کرنے میں اہم کردار ہوتا ہے۔
انہوں نے معصوم کم عمر گھریلو ملازمین کے خلاف وحشیانہ تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا۔
ایم این اے مہناز اکبر نے کہا کہ انہوں نے نومبر 2002 میں گھریلو ملازمین کے تحفظ کا بل پیش کیا تھا جسے قومی اسمبلی میں منظور کیا گیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات کی حوصلہ شکنی اور مذمت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ رضوانہ کیس کے ملزمان سول جج اور ان کی اہلیہ کو جلد از جلد سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں کوئی بھی 16 سال سے کم عمر کے گھریلو ملازم کو ملازمت پر نہیں رکھ سکتا۔
انہوں نے ادارے پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر ڈومیسٹک ورکرز پروٹیکشن بل کے رولز کو پاس کرے تاکہ رضوانہ کیس جیسے واقعات کو روکا جا سکے۔
دوسری جانب جنرل ہسپتال کے 12 رکنی بورڈ نے میڈیکل رپورٹ پنجاب حکومت کو جمع کروا دی۔
میڈیکل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد کے باعث بچی کے جسم میں خون کی گردش نہیں ہورہی۔لڑکی کا جگر شدید متاثر ہے۔انفیکشن کی وجہ سے لڑکی کا بلڈ پریشر گرتا جارہا ہے۔ شدید تشدد کے باعث لڑکی کا ذہنی توازن نارمل نہیں۔ ڈر، خوف اور شدید زخموں کے باعث لڑکی بات کرنے سے قاصر ہے۔
ویڈیو وائرل پنجاب حکومت کو جمع کرائی گئی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ تشدد اور شدید انفیکشن کی وجہ سے لڑکی کو جسم پر شدید سوجن ہے۔ لڑکی حالت خراب ہونے کی وجہ سے کچھ کھا پی نہیں سکتی۔لڑکی کو خوراک کی نالی لگادی گئی ہے۔ لڑکی کے خون میں ریڈ، وائٹ بلڈ سیلز، پلیٹ لیٹس انتہائی کم ہوگئے ہیں۔ انفیکشن اور زخموں کے باعث لڑکی کی شوگر بہت کم ہوگئی ہے۔لڑکی کے دونوں بازو فریکچر ہیں۔ تشدد کے باعث لڑکی کی آنکھیں متاثر ہوئیں۔لڑکی کو حالت بہتر ہونے تک آئی سی یو میں رکھا جائے گا۔متاثرہ لڑکی کا بلڈ پریشر بحال کرنے کے لیے ویسوپریسر سپورٹ پر رکھا جائے گا۔